وَ قُلِ اعۡمَلُوۡا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمۡ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ وَ سَتُرَدُّوۡنَ اِلٰی عٰلِمِ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ فَیُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۰۵﴾ۚ

۱۰۵۔ اور کہدیجئے: لوگو! عمل کرو کہ تمہارے عمل کو عنقریب اللہ اور اس کا رسول اور مومنین دیکھیں گے اور پھر جلد ہی تمہیں غیب و شہود کے جاننے والے کی طرف پلٹا دیا جائے گا پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔

105۔ یعنی تم اس زندگی میں جو عمل خیر یا عمل شر انجام دو گے، اس سے اللہ آگاہ ہے۔ وہ عٰلِمِ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ ہے۔ اس سے اس کائنات میں کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ کائنات اللہ کا دربار ہے۔ دربار میں بیٹھ کر جو بھی کام انجام دیا جاتا ہے وہ صاحب دربار سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔

رَسُوۡلُہٗ : اللہ کا رسول بھی تمہارے اعمال کا مشاہدہ کرتا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ تمہارے اعمال کے شاہد ہیں۔

وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ : اور مومنین بھی تمہارے اعمال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہوں گے کیونکہ یہ لوگ بھی تمہارے اعمال کے شاہد ہیں۔ ائمہ اہل البیت علیہ السلام کی تفسیر و روایت کے مطابق الۡمُؤۡمِنُوۡنَ سے مراد ائمہ اہل البیت علیہ السلام ہیں۔

وَ سَتُرَدُّوۡنَ : آخرت کے دن خود تم بھی اپنے اعمال کا مشاہدہ کرو گے، جب اللہ کی بارگاہ میں جوابدہی کے لیے حاضر کیے جاؤ گے۔

اس آیت میں اگرچہ روئے سخن منافقین کی طرف ہے لیکن یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ قرآنی تعبیر دیکھنا چاہیے۔ تعبیر اگر عام ہے تو قیامت تک کے لوگوں کے لیے ہے، صرف نزول قرآن کے زمانے کے مخاطبین تک محدود نہیں ہے۔