وَ مِمَّنۡ حَوۡلَکُمۡ مِّنَ الۡاَعۡرَابِ مُنٰفِقُوۡنَ ؕۛ وَ مِنۡ اَہۡلِ الۡمَدِیۡنَۃِ ۟ۛؔ مَرَدُوۡا عَلَی النِّفَاقِ ۟ لَا تَعۡلَمُہُمۡ ؕ نَحۡنُ نَعۡلَمُہُمۡ ؕ سَنُعَذِّبُہُمۡ مَّرَّتَیۡنِ ثُمَّ یُرَدُّوۡنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیۡمٍ﴿۱۰۱﴾ۚ

۱۰۱۔ اور تمہارے گرد و پیش کے بدوؤں میں اور خود اہل مدینہ میں بھی ایسے منافقین ہیں جو منافقت پر اڑے ہوئے ہیں، آپ انہیں نہیں جانتے (لیکن) ہم انہیں جانتے ہیں، عنقریب ہم انہیں دوہرا عذاب دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔

101۔ مدینہ کے منافق اپنی منافقت میں مشاق ہو گئے تھے۔ دو مرتبہ عذاب سے کیا مراد ہے؟ ممکن ہے اس سے مراد ایک تو مقصد میں ناکامی اور فضیحت و رسوائی ہو اور ثانیاً اپنی آنکھوں کے سامنے فروغ اسلام کا مشاہدہ کرنا نیز ممکن ہے دوسرا قبر کا عذاب ہو۔