فَکُلُوۡا مِمَّا غَنِمۡتُمۡ حَلٰلًا طَیِّبًا ۫ۖ وَّ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿٪۶۹﴾

۶۹۔ بہرحال اب تم نے جو مال حاصل کیا ہے اسے حلال اور پاکیزہ طور پر کھاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو، یقینا اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

68۔69 ممکن ہے سورہ محمد کی طرف اشارہ ہو جس میں فدیہ لینے کو حلال قرار دیا تھا۔اس طرح اصل فدیہ لینا پہلے سے حلال کیا جا چکا تھا۔ عتاب اس بات پر ہو رہا ہے کہ مسلمانوں نے دشمن کا تعاقب کرنے پر اسیر کرنے کو ترجیح دی۔ اس عمل سے دشمن کا خاتمہ ہونے سے رہ گیا۔ یہ ایسا ہے کہ کوئی شخص نماز کے وقت نماز چھوڑ کر حلال شکار پکڑ لے تو نماز پر شکار پکڑنے کو ترجیح دینا بڑا جرم ہے تاہم شکار حلال ہے۔

قاسمی اپنی تفسیر محاسن التاویل8: 99 میں لکھتے ہیں: قاضی نے کہا ہے کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام اجتہاد کرتے ہیں اور کبھی غلطی کر جاتے ہیں، مگر وہ اس غلطی پر قائم نہیں رہتے۔ جواب یہ ہے کہ یہاں عتاب نبی ﷺ پر نہیں بلکہ مسلمانوں پر ہے۔