آیات 62 - 63
 

وَ اِنۡ یُّرِیۡدُوۡۤا اَنۡ یَّخۡدَعُوۡکَ فَاِنَّ حَسۡبَکَ اللّٰہُ ؕ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَیَّدَکَ بِنَصۡرِہٖ وَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿ۙ۶۲﴾

۶۲۔اور اگر وہ آپ کو دھوکہ دینا چاہیں تو آپ کے لیے یقینا اللہ کافی ہے، وہی تو ہے جس نے اپنی نصرت اور مومنین کے ذریعے آپ کو قوت بخشی ہے۔

وَ اَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ لَوۡ اَنۡفَقۡتَ مَا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا مَّاۤ اَلَّفۡتَ بَیۡنَ قُلُوۡبِہِمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَیۡنَہُمۡ ؕ اِنَّہٗ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۶۳﴾

۶۳۔اور اللہ نے ان کے دلوں میں الفت پیدا کی ہے، اگر آپ روئے زمین کی ساری دولت خرچ کرتے تو بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہیں کر سکتے تھے لیکن اللہ نے ان (کے دلوں) کو جوڑ دیا، یقینا اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَنۡ یَّخۡدَعُوۡکَ: اگر کافروں کی طرف سے صلح کی پیشکش فریب اور دھوکہ پر مبنی ہو تو بھی خوف کی کوئی بات نہیں۔ جس طرح اس نے ماضی میں آپ کی مدد کی، مستقبل میں بھی مدد کرے گا۔ چنانچہ کسی موقع پر بھی رسول اسلامؐ کافروں کے دھوکے میں نہیں آئے۔ جس نے ماضی میں لوگوں سے نسلی، قبائلی اور لسانی اختلافات ختم کر کے ان کو اسلام کے پرچم تلے جمع کیا ہے، وہ آئندہ بھی انہی لوگوں کے ذریعے آپؐ کی مدد کرے گا۔ ماضی میں اللہ نے ایسے گروہوں میں الفت پیدا کی جن پر تمہارے ہاتھ میں موجود کوئی مادی سبب مؤثر نہ ہونا تھا۔

۲۔ بِنَصۡرِہٖ: اپنی غیبی کمک کے ذریعے اور دیگر اسباب فراہم کر کے اللہ نے اپنے رسول کی تائید فرمائی۔

۳۔ وَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ: اور مؤمنین کے ذریعے اللہ نے آپؐ کی کمک کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ کمک اللہ کی طرف سے تھی اور ذریعہ مؤمنین تھے۔ اس آیت کا مصداق اول وہ مؤمن ہے کہ جو تائید رسولؐ میں صف اول میں تھے۔ چنانچہ الدارالمنثور ۲: ۱۹۹ میں ابو ہریرہ کی روایت ہے:

مکتوب علی العرش لا الہ الا انا وحدی لا شریک لی محمد عبدی و رسولی ایدتہ بعلی ہُوَ الَّذِیۡۤ اَیَّدَکَ بِنَصۡرِہٖ وَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۔

عرش پر لکھا ہے: میرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ میرا کوئی شریک نہیں۔محمد میرا بندہ اور میرا رسول ہے میں نے ان کی تائید کی ہے علی سے۔ وہی تو ہے جس نے اپنی نصرت اور مؤمنین کے ذریعے آپ کو قوت بخشی ہے۔

نیز حافظ ابو نعیم نے کتاب ما نزل من القرآن فی علی میں ذکر کیا ہے۔ جیسا کہ کتاب خصائص الوحی المبین صفحہ ۱۱۱ میں مذکور ہے۔ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں حدیث نمبر ۹۱۸، گنجی نے کفایۃ الطالب باب ۱۲ میں۔ شواھد التنزیل ذیل آیت۔ انس کی روایت: اس حدیث کو انس نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو شواھد التنزیل ذیل آیت۔ ابن عساکر نے تاریخ دمشق ۸: ۴۴، خطیب نے تاریخ بغداد میں عیسی بن بنی محمد کے حالات میں ۱۱: ۱۷۳ میں اسے نقل کیا ہے۔ دوسری روایت میں انس بن مالک کہتے ہیں : ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شدید گرسنگی لاحق ہوئی تو جبرئیل جنت سے ایک سرخ اخروٹ لے کر آئے اور عرض کیا: اسے کھول دیجیے۔ رسول اللہؐ نے اسے کھولا تو اس کے اندر لکھا ہوا تھا: بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ایدتہ بعلّیٍ و نصرتہ بہ ۔ شواھد التنزیل ذیل آیت۔ جابر بن عبد اللہؓ اور خادم رسول ابو الحمراء سے بھی یہی حدیث مروی ہے۔ ابن عباسؓ راوی ہیں کہ ہم رسول اللہؐ کی خدمت میں تھے تو ایک پرندے نے ایک سرخ اخروٹ اپنے منہ سے رسول اللہؐ کی گود میں گرایا تو رسول اللہؐ نے اس کو چوم لیا۔ پھر کھولا تو اس کے اندر سے سرخ ورق نکل آیا جس پر لکھا تھا: لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ نصرتہ بعلّیٍ ۔ یعنی کلمہ کے بعد لکھا تھا کہ میں نے علیؑ کے ذریعے رسولؐ کی نصرت کی۔ ملاحظہ ہو کتاب سمط النجوم ۲: ۴۸۵ بحوالہ حاشیہ شواھد التنزیل ۔

۴۔ اَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِہِمۡ: اللہ نے ان کے دلوں میں الفت پیدا کی۔ یہ الفت صرف اوس و خزرج میں منحصر نہیں جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں۔ سب لوگ بھی آپس میں جنگ و قتال اور نزاع و اختلاف میں گرفتار رہتے تھے۔

۵۔ لَوۡ اَنۡفَقۡتَ: اس سے یہ اشارہ مل جاتا ہے کہ انفاق کو تالیف قلوب میں ایک اہم اثر حاصل ہے۔ چنانچہ اللہ نے اس مقصد کے لیے زکات میں تالیف قلوب کے لیے ایک مد مختص کی ہے۔

اہم نکات

۱۔ انسان کو ان الٰہی علل و اسباب پر بھروسا کرنا چاہیے جو ظاہری علل و اسباب کے ماوراء میں ہیں : لَوۡ اَنۡفَقۡتَ مَا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا مَّاۤ اَلَّفۡتَ بَیۡنَ قُلُوۡبِہِمۡ ۔۔۔۔

۲۔اللہ کی تائید کے لیے مؤمنین ذریعہ بن جاتے ہیں ہُوَ الَّذِیۡۤ اَیَّدَکَ بِنَصۡرِہٖ وَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۔۔۔۔


آیات 62 - 63