آیت 67
 

مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہٗۤ اَسۡرٰی حَتّٰی یُثۡخِنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ تُرِیۡدُوۡنَ عَرَضَ الدُّنۡیَا ٭ۖ وَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ الۡاٰخِرَۃَ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۶۷﴾

۶۷۔ یہ کسی نبی کے شایان نہیں ہے کہ زمین میں دشمن کو کچل دینے سے پہلے اس کے پاس قیدی ہوں، تم لوگ دنیاوی مفاد چاہتے ہو جب کہ اللہ (تمہارے لیے) آخرت چاہتا ہے، یقینا اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

تشریح کلمات

اسیر:

( ا س ر )کے معنی قید میں جکڑ لینے کے ہیں۔ یہ اَسََرْتُ اُلَقتَبَ سے لیا گیا ہے، جس کے معنی پالان کو مضبوطی سے باندھنا ہیں۔

ثخن:

( ث خ ن ) کے معنی ہیں کسی چیز کا گاڑھا ہو جانا، اس طرح کہ بہنے سے رک جائے۔ اسی سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے: اثخنتہ ضربا و استخفافاً ۔ میں نے اسے اتنا پیٹا کہ وہ اپنے مقام سے حرکت نہ کر سکا۔ اس طرح اثخن کے معنی کچلنے کے بنتے ہیں۔

تفسیر آیات

اسلامی جنگی حکمت عملی کے مطابق یہ دستور پہلے دیا جا چکا تھا کہ جنگ کے دوران دشمن کی طاقت کو کچلنے پر پوری توجہ مرکوز ہو نی چاہیے اور قیدی بنانے کا عمل اس کے بعد شروع ہونا چاہیے۔ جیسا کہ سورہ محمد میں فرمایا:

فَاِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَضَرۡبَ الرِّقَابِ ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَثۡخَنۡتُمُوۡہُمۡ فَشُدُّوا الۡوَثَاقَ ٭ۙ فَاِمَّا مَنًّۢا بَعۡدُ وَ اِمَّا فِدَآءً حَتّٰی تَضَعَ الۡحَرۡبُ اَوۡزَارَہَا ۔۔۔۔ (۴۷ محمد: ۴)

پس جب کفار سے تمہارا سامنا ہو تو (ان کی) گردنیں مارو یہاں تک کہ جب انہیں خوب قتل کر چکو تو (بچنے والوں کو) مضبوطی سے قید کر لو، اس کے بعد احسان رکھ کر یا فدیہ لے کر (چھوڑ دو) تاوقتیکہ لڑائی تھم جائے۔

لیکن بدر میں اس ترتیب کا لحاظ نہیں رکھا گیا اور عین گردن مارنے اور دشمن کو کچل دینے کے موقع پر ان کو اسیر بنانے کا عمل شروع کیا گیا۔ چنانچہ جب مشرکین مکہ کی فوج فرار ہونے لگی تو مسلمانوں میں سے اکثر نے غنیمت جمع کرنے اور کفار کے افراد کو پکڑکر قیدی بنانے پر اپنی پوری توانائیاں مرکوز کر دیں۔

حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں آیا ہے کہ آپؑ نے کسی کو اسیر نہیں بنایا بلکہ آپؑ نے ساری توجہ دشمن کو کچلنے پر مرکوز رکھی۔ اس لیے قریش کے ستر افراد جو مارے گئے، ان میں سے ستائیس افراد صرف حضرت علی علیہ السلام نے قتل کیے، باقی ۴۳ افراد کل مسلمانوں نے۔

اثنائے حرب میں اسیروں کے پیچھے پڑنا ایک سنگیں غلطی تھی جو جنگی حکمت عملی اور اسلامی جہاد کے مقاصد کے بالکل منافی تھا اور اس کے دور رس منفی اثرات مرتب ہوئے تھے۔

مولانا مودودی نے اس آیت کے ذیل میں انصاف سے کام لیا ہے۔ لکھتے ہیں :

جنگ میں جب قریش کی فوج بھاگ نکلی تو مسلمانوں کا ایک بڑا گروہ غنیمت لوٹنے اور کفار کے آدمیوں کو پکڑ پکڑ کر باندھنے میں لگ گیا اور بہت کم آدمیوں نے دشمنوں کا کچھ دور تک تعاقب کیا حالانکہ اگر مسلمان پوری طاقت سے ان کاتعاقب کرتے تو قریش کا اسی روز خاتمہ ہو گیا ہوتا۔ اسی پر اللہ تعالیٰ عتاب فرما رہا ہے اور یہ عتاب نبی صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم پر نہیں ہے بلکہ مسلمانوں پر ہے۔ فرمان مبارک کا منشا یہ ہے کہ تم لوگ ابھی نبی کے مشن کو اچھی طرح نہیں سمجھے ہو۔ نبی کا اصل کام یہ نہیں کہ فدیے اور غنائم وصول کر کے خزانے بھرے بلکہ اس کے نصب العین سے جو چیز براہ راست تعلق رکھتی ہے، وہ صرف یہ ہے کہ کفر کی طاقت ٹوٹ جائے مگر تم لوگوں پر بار بار دنیا کا لالچ غالب آجاتا ہے۔ پہلے دشمن کی اصل طاقت کی بجائے قافلے پر حملہ کرنا چاہا، پھر دشمن کا سر کچلنے کی بجائے غنیمت لوٹنے اور قیدی پکڑنے میں لگ گئے۔ پھر غنیمت پر جھگڑنے لگے۔۔۔

سید شرف الدین عاملی اپنی کتاب النص والاجتہاد میں یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو بدر میں جنگ لڑنے کی جگہ قریش کے تجارتی قافلے کو اسیر بنانا چاہتے تھے۔ ان کی سرزنش ہوئی کہ نبی کے لیے سزاوار نہیں اپنا قدم جمانے سے پہلے اسیر بنائے۔

اہم نکات

۱۔ عصر رسالت ہی سے طمع اور مفاد پرستیوں نے اسلامی مشن کو نقصان پہنچایا ہے: تُرِیۡدُوۡنَ عَرَضَ الدُّنۡیَا ۔۔۔۔


آیت 67