آیات 68 - 69
 

لَوۡ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمۡ فِیۡمَاۤ اَخَذۡتُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ﴿۶۸﴾

۶۸۔ اگر اللہ کی طرف سے ایک بات لکھی نہ جا چکی ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کی تمہیں بڑی سزا ہو جاتی۔

فَکُلُوۡا مِمَّا غَنِمۡتُمۡ حَلٰلًا طَیِّبًا ۫ۖ وَّ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿٪۶۹﴾

۶۹۔ بہرحال اب تم نے جو مال حاصل کیا ہے اسے حلال اور پاکیزہ طور پر کھاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو، یقینا اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

فدیہ لینا جائز ہونے پر پہلے فیصلہ نہ ہوا ہوتا تو تمہیں بڑی سزا ملتی۔ ممکن ہے سورہ محمد کی طرف اشارہ ہو جس میں فدیہ لینے کو حلال قرار دیا تھا۔ اس طرح اصل فدیہ لینا پہلے سے حلال کیا جا چکا تھا۔ عتاب اس بات پر ہو رہا ہے کہ مسلمانوں نے دشمن کا تعاقب کرنے پر اسیر کرنے کو ترجیح دی۔ اس عمل سے دشمن کا خاتمہ ہونے سے رہ گیا۔ یہ ایسا ہے کہ کوئی شخص نماز کے وقت نماز چھوڑ کر حلال شکار پکڑ لے تو نماز پر شکار پکڑنے کو ترجیح دینا بڑا جرم ہے، تاہم شکار حلال ہے۔

قاسمی اپنی تفسیر محاسن التاویل ۸: ۹۹ میں لکھتے ہیں :

قاضی نے کہا ہے کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام اجتہاد کرتے ہیں اور کبھی غلطی کر جاتے ہیں ، مگر وہ اس غلطی پر قائم نہیں رہتے۔

قاسمی کی یہ بات درست نہیں کیونکہ اسیر لینے کا عمل رسولؐ کے حکم سے نہیں ہوا تھا۔ یہ عمل لوگوں سے سرزد ہوا ہے اور سرزنش بھی لوگوں کی ہو رہی ہے۔ جیسا کہ فِیۡمَاۤ اَخَذۡتُمۡ قرینہ ہے کہ یہ حرکت لوگوں سے سرزد ہوئی تھی۔


آیات 68 - 69