مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہٗۤ اَسۡرٰی حَتّٰی یُثۡخِنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ تُرِیۡدُوۡنَ عَرَضَ الدُّنۡیَا ٭ۖ وَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ الۡاٰخِرَۃَ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۶۷﴾

۶۷۔ یہ کسی نبی کے شایان نہیں ہے کہ زمین میں دشمن کو کچل دینے سے پہلے اس کے پاس قیدی ہوں، تم لوگ دنیاوی مفاد چاہتے ہو جب کہ اللہ (تمہارے لیے) آخرت چاہتا ہے، یقینا اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

67۔ اسلامی جنگی حکمت عملی کے مطابق یہ دستور پہلے دیا جا چکا تھا کہ جنگ کے دوران دشمن کی طاقت کو کچلنے پر توجہ مرکوز ہونی چاہیے اور قیدی بنانے کا عمل اس کے بعد شروع ہونا چاہیے۔ لیکن بدر میں اس ترتیب کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ چنانچہ جب دشمن کی فوج بھاگ نکلی تو مسلمانوں کا ایک بڑا گروہ غنیمت لوٹنے اور کفار کے افراد کو قیدی بنانے میں مصروف ہو گیا۔ اگر مسلمانوں کی پوری طاقت دشمن کے تعاقب پر صرف ہوتی تو دشمن کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ اس لیے اس عمل پر رسول کریم ﷺ کو خطاب کر کے مسلمانوں کی سرزنش کی جو کہ اللہ تعالیٰ کا اسلوب خطاب ہے۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام نے ساری توجہ دشمن کے کچلنے پر مرکوز رکھی تو قریش کے ستر مقتولین میں سے ستائیس افراد صرف آپ علیہ السلام نے قتل کیے اور باقی 43 افراد کل مسلمانوں نے۔

اَثْخَنَ کے معنی کچلنے کے ہیں اور قدم جمانے، اقتدار مضبوط کرنے اور قدم روکنے کے بھی ہیں۔ علامہ عاملی اپنی کتاب النص و الاجتھاد میں یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو بدر میں جنگ لڑنے کی جگہ قریش کے تجارتی قافلے کو اسیر بنانا چاہتے تھے۔ ان لوگوں کی سرزنش میں فرمایا: نبی کے لیے سزاوار نہیں کہ دشمن کو کچل کر اپنے قدم جمانے سے پہلے اسیر بنائے۔