وَ اِذۡ قِیۡلَ لَہُمُ اسۡکُنُوۡا ہٰذِہِ الۡقَرۡیَۃَ وَ کُلُوۡا مِنۡہَا حَیۡثُ شِئۡتُمۡ وَ قُوۡلُوۡا حِطَّۃٌ وَّ ادۡخُلُوا الۡبَابَ سُجَّدًا نَّغۡفِرۡ لَکُمۡ خَطِیۡٓـٰٔتِکُمۡ ؕ سَنَزِیۡدُ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۱۶۱﴾

۱۶۱۔اور جب ان سے کہا گیا کہ اس بستی میں سکونت اختیار کرو اور اس میں جہاں سے چاہو کھاؤ اور حطہ کہتے ہوئے اور دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے، نیکی کرنے والوں کو ہم عنقریب مزید عطا کریں گے۔

فَبَدَّلَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡہُمۡ قَوۡلًا غَیۡرَ الَّذِیۡ قِیۡلَ لَہُمۡ فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِجۡزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا کَانُوۡا یَظۡلِمُوۡنَ﴿۱۶۲﴾٪

۱۶۲۔مگر ان میں سے ظالم لوگوں نے وہ لفظ بدل ڈالا جو خلاف تھا اس کلمہ کے جو انہیں کہا گیا تھا، پھر ان کے اس ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر آسمان سے عذاب بھیجا۔

161۔162۔ انسانی تاریخ کا جو باب بنی اسرائیل نے رقم کیا ہے اس کے سیاہ صفحہ کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ اس قوم نے اللہ کے بے شمار احسانات کے جواب میں کیا کیا مجرمانہ حرکتیں کیں۔

وَ سۡـَٔلۡہُمۡ عَنِ الۡقَرۡیَۃِ الَّتِیۡ کَانَتۡ حَاضِرَۃَ الۡبَحۡرِ ۘ اِذۡ یَعۡدُوۡنَ فِی السَّبۡتِ اِذۡ تَاۡتِیۡہِمۡ حِیۡتَانُہُمۡ یَوۡمَ سَبۡتِہِمۡ شُرَّعًا وَّ یَوۡمَ لَا یَسۡبِتُوۡنَ ۙ لَا تَاۡتِیۡہِمۡ ۚۛ کَذٰلِکَ ۚۛ نَبۡلُوۡہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ﴿۱۶۳﴾ ۞ؒ

۱۶۳۔اور ان سے اس بستی (والوں) کے بارے میں پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی، جب یہ لوگ ہفتہ کے دن خلاف ورزی کرتے تھے اور مچھلیاں ہفتہ کے دن ان کے سامنے سطح آب پر ابھر آتی تھیں اور ہفتہ کے علاوہ باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں، اس طرح ان کی نافرمانی کی وجہ سے ہم انہیں آزماتے تھے۔

163۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ یہ قریہ (بستی) ایلہ تھا۔

سبت (ہفتہ) کے دن مچھلیوں کا پانی کی سطح پر ابھر آنا حکمت امتحان کے مطابق ایک اصلاحی عمل تھا جس سے کامیاب و ناکام لوگ چھن کر الگ ہو گئے۔ سبت عبرانی لفظ شبت کی تعریب شدہ شکل ہے۔ اس کا لغوی معنی ختم کرنا اور آرام کرنا ہے۔ یہ دن یہودیوں کا ہفتہ وار آرام اور پرستش کا دن ہے۔اس کی تاریخ آغازِ آفرینش جتنی ہی پرانی ہے۔ اس سلسلے میں تورات کا بیان یہ ہے: سو آسمان اور زمین اور ان کے کل لشکر کا بنانا ختم ہوا اور خدا نے اپنے کام کو جسے وہ کرتا تھا ساتویں دن ختم کیا اور خدا نے ساتویں دن کو برکت دی اور اسے مقدس ٹھہرایا، کیونکہ اس میں خدا ساری کائنات سے، جسے اس نے پیدا کیا اور بنایا، فارغ ہوا۔ (تورات پیدائش باب 2 آیات 1۔3)

وَ اِذۡ قَالَتۡ اُمَّۃٌ مِّنۡہُمۡ لِمَ تَعِظُوۡنَ قَوۡمَۨا ۙ اللّٰہُ مُہۡلِکُہُمۡ اَوۡ مُعَذِّبُہُمۡ عَذَابًا شَدِیۡدًا ؕ قَالُوۡا مَعۡذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ﴿۱۶۴﴾

۱۶۴۔اور جب ان میں سے ایک فرقے نے کہا:ان لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاکت یا شدید عذاب میں ڈالنے والا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: (ہم یہ نصیحت) تمہارے رب کی بارگاہ میں عذر پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور(اس لیے بھی کہ) شاید وہ تقویٰ اختیار کریں۔

164۔ اس آیت میں تین گروہوں کا ذکر ہے: ایک گروہ وہ جس نے یوم سبت کے جرم کا ارتکاب کیا۔ دوسرا گروہ وہ جو اس گروہ کو ایسا نہ کرنے کی نصیحت کرتا تھا۔ تیسرا گروہ وہ جو ان کی اصلاح سے مایوس تھا اور نصیحت کے حق میں نہ تھا۔

فَلَمَّا نَسُوۡا مَا ذُکِّرُوۡا بِہٖۤ اَنۡجَیۡنَا الَّذِیۡنَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ السُّوۡٓءِ وَ اَخَذۡنَا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا بِعَذَابٍۭ بَئِیۡسٍۭ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ﴿۱۶۵﴾

۱۶۵۔پس جب انہوں نے وہ باتیں فراموش کر دیں جن کی انہیں نصیحت کی گئی تھی تو ہم نے برائی سے روکنے والوں کو نجات دی اور ظالموں کو ان کی نافرمانی کی وجہ سے برے عذاب میں مبتلا کر دیا۔

165۔ اس آیت میں دو گروہوں کا ذکر صریح لفظوں میں ہے: ایک وہ جنہوں نے وعظ و نصیحت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری پوری کی اور نجات پائی۔ دوسرا وہ جس نے عدم تأثیر کا بہانہ کرکے اس ذمہ داری سے پہلوتہی کی۔

فَلَمَّا عَتَوۡا عَنۡ مَّا نُہُوۡا عَنۡہُ قُلۡنَا لَہُمۡ کُوۡنُوۡا قِرَدَۃً خٰسِئِیۡنَ﴿۱۶۶﴾

۱۶۶۔پس جب انہوں نے اس امر میں سرکشی کی جس سے انہیں روکا گیا تھا تو ہم نے کہا: خوار ہو کر بندر بن جاؤ۔

وَ اِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّکَ لَیَبۡعَثَنَّ عَلَیۡہِمۡ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ مَنۡ یَّسُوۡمُہُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ ؕ اِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیۡعُ الۡعِقَابِ ۚۖ وَ اِنَّہٗ لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۶۷﴾

۱۶۷۔اور (یاد کریں) جب آپ کے رب نے اعلان کیا کہ وہ ان (یہودیوں) پر قیامت تک ایسے لوگوں کو ضرور مسلط کرتا رہے گا جو انہیں بدترین عذاب دیں گے آپ کا رب یقینا جلد سزا دینے والا ہے اور بلا شبہ وہ غفور، رحیم بھی ہے۔

167۔ سیاق آیت وَ اِذۡ تَاَذَّنَ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کو یہ تنبیہ قدیم زمانے سے کی جا رہی تھی۔ چنانچہ توریت میں آیا ہے کہ تم اپنے دشمنوں کے سامنے قتل کیے جاؤ گے اور جو لوگ تمہارے ساتھ کینہ رکھتے ہیں تم پر حکومت کریں گے۔

قرآن میں یہی تنبیہ متعدد مقامات پر مذکور ہے۔ سورہ بنی اسرائیل آیت 8 میں اس تنبیہ کے بعد فرمایا: عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا ۔ ہو سکتا ہے تمہارا رب تم پر رحم کرے اور اگر تم نے پھر وہی حرکت کی تو ہم بھی وہی سلوک کریں گے۔

وَ قَطَّعۡنٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ اُمَمًا ۚ مِنۡہُمُ الصّٰلِحُوۡنَ وَ مِنۡہُمۡ دُوۡنَ ذٰلِکَ ۫ وَ بَلَوۡنٰہُمۡ بِالۡحَسَنٰتِ وَ السَّیِّاٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ﴿۱۶۸﴾

۱۶۸۔ اور ہم نے انہیں زمین میں مختلف گروہوں میں تقسیم کیا، ان میں کچھ لوگ نیک اور کچھ لوگ دوسری طرح کے تھے اور ہم نے آسائشوں اور تکلیفوں کے ذریعے انہیں آزمایا کہ شاید وہ باز آ جائیں۔

168۔ آزمائشوں میں کامیابی کا واحد راستہ یہ ہے کہ انسان آسائشوں میں شاکر اور تکلیفوں میں صابر رہے۔

فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ خَلۡفٌ وَّرِثُوا الۡکِتٰبَ یَاۡخُذُوۡنَ عَرَضَ ہٰذَا الۡاَدۡنٰی وَ یَقُوۡلُوۡنَ سَیُغۡفَرُ لَنَا ۚ وَ اِنۡ یَّاۡتِہِمۡ عَرَضٌ مِّثۡلُہٗ یَاۡخُذُوۡہُ ؕ اَلَمۡ یُؤۡخَذۡ عَلَیۡہِمۡ مِّیۡثَاقُ الۡکِتٰبِ اَنۡ لَّا یَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الۡحَقَّ وَ دَرَسُوۡا مَا فِیۡہِ ؕ وَ الدَّارُ الۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لِّلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ﴿۱۶۹﴾

۱۶۹۔ پھر ان کے بعد ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جو کتاب اللہ کے وارث بن کر اس ادنیٰ زندگی کا مال و متاع سمیٹتے تھے اور کہتے تھے: ہم جلد ہی بخش دیے جائیں گے اور اگر ایسی ہی اور متاع ان کے سامنے آ جائے تو اسے بھی اچک لیتے، کیا ان سے کتاب کا میثاق نہیں لیا گیا تھا کہ وہ اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ بھی نہ کہیں گے اور جو کچھ کتاب کے اندر ہے اسے یہ لوگ پڑھ چکے ہیں اور اہل تقویٰ کے لیے آخرت کی زندگی ہی بہترین زندگی ہے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟

169۔ بنی اسرائیل میں ایک زمانہ تک کچھ لوگ نیک اور صالح رہے ہیں،لیکن بعد میں ان کی جگہ ایسے ناخلف لوگوں نے لی جنہوں نے کتاب خدا کو پڑھ لیا حلال و حرام سے واقف ہوئے، لیکن ان سے مثبت اثر لینے کی بجائے ان لوگوں نے نا جائز ذرائع سے دنیاوی مال و متاع سمیٹنا شروع کیا۔

اور یہ کہ ان گناہوں کے ارتکاب پر نالاں ہونے کی بجائے وہ نازاں تھے اور کہتے تھے: سَیُغۡفَرُ لَنَا ہم بخشے جائیں گے۔ کیونکہ ہم اللہ کی برگزیدہ قوم ہیں ہم کو اللہ عذاب نہیں دے گا لَنۡ تَمَسَّنَا النَّارُ (آل عمران: 24) آتش جہنم ہمارے نزدیک نہیں آئے گی۔ یہ بات اللہ پر بہتان و افتراء پردازی ہے۔ حالانکہ ان سے عہد و میثاق لیا گیا تھا کہ وہ اس قسم کی ناحق نسبت اللہ کی طرف نہ دیں۔

وَ الَّذِیۡنَ یُمَسِّکُوۡنَ بِالۡکِتٰبِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ؕ اِنَّا لَا نُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُصۡلِحِیۡنَ﴿۱۷۰﴾

۱۷۰۔ اور جو لوگ کتاب اللہ سے متمسک رہتے اور نماز قائم کرتے ہیں ہم (ایسے) مصلحین کا اجر ضائع نہیں کرتے ۔