آیت 167
 

وَ اِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّکَ لَیَبۡعَثَنَّ عَلَیۡہِمۡ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ مَنۡ یَّسُوۡمُہُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ ؕ اِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیۡعُ الۡعِقَابِ ۚۖ وَ اِنَّہٗ لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۶۷﴾

۱۶۷۔اور (یاد کریں) جب آپ کے رب نے اعلان کیا کہ وہ ان (یہودیوں) پر قیامت تک ایسے لوگوں کو ضرور مسلط کرتا رہے گا جو انہیں بدترین عذاب دیں گے آپ کا رب یقینا جلد سزا دینے والا ہے اور بلا شبہ وہ غفور، رحیم بھی ہے۔

تفسیر آیات

سیاق آیت وَ اِذۡ تَاَذَّنَ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کو قدیم سے تنبیہ کی جارہی تھی۔ چنانچہ خود توریت کے بعض مضامین سے بھی ظاہر ہوتا ہے:

تم اپنے دشمنوں کے سامنے قتل کیے جاؤ گے اور جو تمہارا کینہ رکھتے ہیں تم پر حکومت کریں گے۔ ( احبار ۲۶:۱۴۔۱۷)

اناجیل کی مختلف عبارتوں سے بھی اسی تنبیہ کا اشارہ ملتا ہے۔ قرآن میں یہی تنبیہ متعدد مقامات پر مذکور ہے۔ سورہ بنی اسرائیل آیت ۸ میں اس تنبیہ کے بعد فرمایا:

عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا ۔۔۔۔۔

امید ہے کہ تمہارا پروردگار تم پر رحم کرے گا اور اگر تم نے (شرارت) دہرائی تو ہم بھی (اسی روش کو) دہرائیں گے۔۔۔۔

اس سے یہ عندیہ ملتاہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو کچھ وقفے بھی فراہم فرماتا ہے لیکن وہ اپنے جرائم کو جاری رکھیں گے۔ چنانچہ ان کو اہل بابل کا اسیر ہونا پڑا۔ اس کے بعد اہل نصاریٰ کی طرف سے ذلت و خواری اٹھانا پڑی۔ اسلام کے عہد میں مشرکوں کے ساتھ مل کر اسلام کے خلاف ہر ممکن سازش میں ملوث رہے۔ تاہم اسلام کے عدل و انصاف کے نظام میں ان سازشوں کے باوجود امن و سکون کے ساتھ رہے۔ ہماری معاصر حکومتوں میں جرمن سرفہرست ہے۔ ان کی طرف سے ان کا قتل عام ہوا اور ذلت و خواری اٹھانا پڑی۔ اسی طرح وہ ہر دور میں منفور و مکروہ قوم کی طرح پہچانی جاتی رہی۔

یہود اس وقت بھی انسانیت سوز جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ قرآنی نوید وَ اِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا کے مطابق ہم مطمئن ہیں کہ اللہ ان سے انتقام لینے والے بھیج دے گا۔

اہم نکات

۱۔ یہود کو اگر اللہ کو ئی وقفہ فراہم کر دے تو یہ ان پر حجت پوری کرنے کے لیے ہے۔ اس سے کسی قسم کی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔

۲۔ اللہ جہاں ناقابل ہدایت لوگوں کے لیے سریع العقاب ہے، وہاں توبہ کرنے والوں کے لیے غفور رحیم ہے۔


آیت 167