آیت 168
 

وَ قَطَّعۡنٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ اُمَمًا ۚ مِنۡہُمُ الصّٰلِحُوۡنَ وَ مِنۡہُمۡ دُوۡنَ ذٰلِکَ ۫ وَ بَلَوۡنٰہُمۡ بِالۡحَسَنٰتِ وَ السَّیِّاٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ﴿۱۶۸﴾

۱۶۸۔ اور ہم نے انہیں زمین میں مختلف گروہوں میں تقسیم کیا، ان میں کچھ لوگ نیک اور کچھ لوگ دوسری طرح کے تھے اور ہم نے آسائشوں اور تکلیفوں کے ذریعے انہیں آزمایا کہ شاید وہ باز آ جائیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَطَّعۡنٰہُمۡ: ان کو زمین کے مختلف گوشوں میں پھیلا دیا۔ ان میں سے کچھ لوگ نیک ہیں۔ مثلاً جنہوں نے جرائم سبت سے منع کیا تھا اور جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا اور کچھ کا مقام اس سے کمتر ہے۔

۲۔ وَ بَلَوۡنٰہُمۡ بِالۡحَسَنٰتِ وَ السَّیِّاٰتِ: ان کی آزمائش کے دو طریقے بیان ہوئے: ایک یہ کہ ان کو آسائش دے کر آزما لیا گیا تاکہ یہ دیکھ بھی لیا جائے کہ نعمتوں کے وفور سے ان کی بغاوت اور سرکشی میں اضافہ ہوتا ہے یا نہیں اور کبھی تکلیفوں کے ذریعے کہ سخت حالات میں یہ صابر رہتے ہیں؟ چنانچہ بعض کو مال و دولت سے مالا مال کیا جاتا ہے اور بعض کو اقتدار پرمتمکن کیا جاتا ہے۔ بعض کو فقر و تنگدستی سے دوچار کیا جاتا ہے اور کچھ کو مظلومیت میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ یہ سب امتحان کی مختلف صورتیں ہیں۔ ان میں آسائش کا امتحان نسبتاً زیادہ صبر آزما ہوتا ہے۔ دولت و کرسی پر آنے کے بعد اکثر لوگوں کے سامنے قدریں بدل جاتی ہیں۔ رعونت آنا شروع ہو جاتی ہے۔ ظلم و استحصال کو جائز بلکہ ضروری سمجھنا شروع کرتے ہیں۔

نَبۡلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَ الۡخَیۡرِ فِتۡنَۃً ۔۔۔۔ (۲۱ انبیاء: ۳۵)

اور ہم امتحان کے طور پر برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہیں مبتلا کرتے ہیں۔۔۔۔

مزید تشریح کے لیے ملاحظہ فرمائیں اعراف : ۹۴۔ ۹۵

اہم نکات

۱۔ آزمائش میں کامیابی کا واحد راستہ یہ ہے کہ آسائشوں میں شاکر اور تکلیفوں میں صابر رہے۔


آیت 168