قَالَ رَبِّ اغۡفِرۡ لِیۡ وَ لِاَخِیۡ وَ اَدۡخِلۡنَا فِیۡ رَحۡمَتِکَ ۫ۖ وَ اَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ﴿۱۵۱﴾٪

۱۵۱۔موسیٰ نے کہا: اے میرے رب! مجھے اور میرے بھائی کو معاف فرما اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے ۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوا الۡعِجۡلَ سَیَنَالُہُمۡ غَضَبٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ ذِلَّۃٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُفۡتَرِیۡنَ﴿۱۵۲﴾

۱۵۲۔جنہوں نے گوسالہ کو(معبود)بنایا بیشک ان پر عنقریب ان کے رب کا غضب واقع ہو گا اور دنیاوی زندگی میں ذلت اٹھانا پڑے گی اور بہتان پردازوں کو ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔

152۔ روایات کے مطابق سامری اور گوسالہ پرستی کے تین ہزار مجرموں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ تورات میں اصل واقعہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: تو موسیٰ علیہ السلام نے لشکر گاہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا: جو خدواند کی طرف ہے وہ میرے پاس آئے۔ تب سب بنی لاوی (بنی اسرائیل کا ایک قبیلہ) اس کے پاس جمع ہو گئے اور بنی لاوی نے موسیٰ علیہ السلام کے کہنے کے موافق عمل کیا۔ چنانچہ اس دن لوگوں میں سے تقریباً تین ہزار مرد کھیت آئے۔ (تورات۔ خروج باب 32 آیات 26، 28)

وَ الَّذِیۡنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِہَا وَ اٰمَنُوۡۤا ۫ اِنَّ رَبَّکَ مِنۡۢ بَعۡدِہَا لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۵۳﴾

۱۵۳۔اور جنہوں نے گناہ کا ارتکاب کیا پھر اس کے بعد توبہ کر لی اور ایمان لے آئے تو اس (توبہ) کے بعد آپ کا رب یقینا بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

153۔ آیت کا اطلاق عام ہے تاہم اس جگہ مراد گوسالہ پرستوں میں سے وہ گروہ ہے جو صحیح معنوں میں اپنے اس عمل پر نادم ہوا اور صحیح معنوں میں ایمان پر قائم رہا۔ اسی طرح ہر ایماندار تائب کے لیے اللہ کی رحمت اس گناہ سے عظیم ہے جس کا ارتکاب ہوا ہے۔

وَ لَمَّا سَکَتَ عَنۡ مُّوۡسَی الۡغَضَبُ اَخَذَ الۡاَلۡوَاحَ ۚۖ وَ فِیۡ نُسۡخَتِہَا ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلَّذِیۡنَ ہُمۡ لِرَبِّہِمۡ یَرۡہَبُوۡنَ﴿۱۵۴﴾

۱۵۴۔اور جب موسیٰ کا غصہ فرو ہو گیا تو انہوں نے(توریت کی)وہ تختیاں اٹھائیں جن کی تحریر میں ان لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت تھی جو اپنے رب سے خائف رہتے ہیں۔

154۔ اَخَذَ الۡاَلۡوَاحَ سے ظاہر ہوتا ہے کہ تختیاں سالم تھیں۔ اس میں توریت کی اس بات کی رد ہے کہ تختیاں ٹوٹ گئی تھیں۔

وَ اخۡتَارَ مُوۡسٰی قَوۡمَہٗ سَبۡعِیۡنَ رَجُلًا لِّمِیۡقَاتِنَا ۚ فَلَمَّاۤ اَخَذَتۡہُمُ الرَّجۡفَۃُ قَالَ رَبِّ لَوۡ شِئۡتَ اَہۡلَکۡتَہُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ وَ اِیَّایَ ؕ اَتُہۡلِکُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَہَآءُ مِنَّا ۚ اِنۡ ہِیَ اِلَّا فِتۡنَتُکَ ؕ تُضِلُّ بِہَا مَنۡ تَشَآءُ وَ تَہۡدِیۡ مَنۡ تَشَآءُ ؕ اَنۡتَ وَلِیُّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا وَ ارۡحَمۡنَا وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الۡغٰفِرِیۡنَ﴿۱۵۵﴾

۱۵۵۔ اور موسیٰ نے ہماری مقررہ میعاد کے لیے اپنی قوم سے ستر افراد منتخب کیے، پھر جب انہیں زلزلے نے گرفت میں لیا (تو) موسیٰ نے عرض کیا: میرے رب! اگر تو چاہتا تو انہیں اور مجھے پہلے ہی ہلاک کر دیتا، کیا تو ہمارے کم عقل لوگوں کے اعمال کی سزا میں ہمیں ہلاک کر دے گا؟ یہ تو تیری ایک آزمائش تھی جس سے جسے تو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، تو ہی ہمارا آقا ہے، پس ہمیں معاف فرما اور ہم پر رحم فرما اور تو معاف کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے ۔

155۔ ان ستر افراد کو اللہ تعالی نے کوہ طور پر کس غرض سے بلایا تھا اور وہ کون سا جرم تھا جس کی سزا میں ان کو زلزلے نے گرفت میں لیا اور سب کو ہلاک بھی کر دیا؟ اور وہ کون سا سفیہانہ عمل تھا جس کی طرف حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اشارہ فرمایا؟ اس آیت میں ان باتوں کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے۔ بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ قوم موسیٰ علیہ السلام کے یہ نمائندہ افراد گوسالہ پرستی کی معافی طلب کرنے کے لیے آئے تھے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معافی و توبہ کے لیے آنے پر ہلاکت کی سزا کیوں؟

درحقیقت ان سوالات کا جواب سورﮤ بقرہ میں موجود ہے جہاں اس واقعے کو اس ترتیب سے بیان کیا ہے: قوم موسیٰ کے لیے پہلے دریا شگافتہ ہوا پھر حضرت موسیٰ کو چالیس دنوں کے لیے کوہ طور پر بلایا گیا۔ اس دوران گوسالہ پرستی کا واقعہ پیش آیا۔

اس کے بعد قوم موسیٰ نے اللہ کو عیاناً دکھانے کا مطالبہ کیا اور مطالبہ کی صورت یہ تھی: لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہۡرَۃً ۔ (بقرۃ: 55) جب تک ہم اللہ کو علانیہ دیکھ نہ لیں ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے۔ اس پر قوم کے ستر افراد کو زلزلے نے گرفت میں لے لیا اور ہلاک ہو گئے۔

وَ اکۡتُبۡ لَنَا فِیۡ ہٰذِہِ الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ اِنَّا ہُدۡنَاۤ اِلَیۡکَ ؕ قَالَ عَذَابِیۡۤ اُصِیۡبُ بِہٖ مَنۡ اَشَآءُ ۚ وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ فَسَاَکۡتُبُہَا لِلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ بِاٰیٰتِنَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۵۶﴾ۚ

۱۵۶۔ اور ہمارے لیے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بھلائی مقرر فرما ہم نے تیری طرف رجوع کر لیا ہے،ارشاد فرمایا: عذاب تو جسے میں چاہتا ہوں دیتا ہوں اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے، پس اسے میں ان لوگوں کے لیے مقرر کر دوں گا جو تقویٰ رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔

اَلَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکۡتُوۡبًا عِنۡدَہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ ۫ یَاۡمُرُہُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہٰہُمۡ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیۡہِمُ الۡخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَ عَزَّرُوۡہُ وَ نَصَرُوۡہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴿۱۵۷﴾٪

۱۵۷۔(یہ رحمت ان مومنین کے شامل حال ہو گی)جو لوگ اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی امی کہلاتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور پاکیزہ چیزیں ان کے لیے حلال اور ناپاک چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور (گلے کے) طوق اتارتے ہیں، پس جو ان پر ایمان لاتے ہیں ان کی حمایت اور ان کی مدد اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔

157۔ اہل کتاب عربوں کو امی کہتے تھے اور انہیں اپنے برابر حقوق کے اہل نہ سمجھتے تھے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس لفظ امی کو اہل کتاب خاص کر یہودی تحقیر کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ لیکن قرآن نے اس لفظ کو رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شناخت کے طو رپر بیان فرمایا۔ اس میں یہ نکتہ ہے کہ وہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جن کے بارے میں تم خود تسلیم کرتے ہو کہ وہ امی ہیں، ایک ایسا کامل نظام حیات پیش کرتے ہیں جس کی نظیر پیش کرنے سے انسانی درسگاہوں کے پڑھے ہوئے دانشور قاصر ہیں۔ وہ تمہارے پڑھے لکھوں سے کہیں زیادہ پڑھے لکھے ہیں، البتہ وہ بشری درسگاہوں کے فارغ التحصیل نہیں، یہ ملکوتی درس گاہ کے پڑھے لکھے ہیں۔ انہوں نے ان سیاہ لکیروں والی تحریروں کو نہیں پڑھا۔ وہ لوح کائنات پر قلم قدرت سے لکھی ہوئی تحریروں کو پڑھ کر آئے ہیں۔

الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ : تغیر و تحریف کے باوجود موجودہ توریت و انجیل میں رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آمد کے بارے میں تصریحات موجود ہیں۔ توریت استثناء 18،15 میں مذکور ہے:خداوند تیرا خدا، تیرے لیے، تیرے ہی درمیان سے، تیرے ہی بھائیوں میں میری مانند ایک نبی برپا کرے گا تم اس کی طرف کان دھریو۔ بنی اسرائیل کے بھائیوں سے مراد اولاد اسماعیل ہی ہو سکتی ہیں۔ انجیل یوحنا 14:1 میں آیا ہے: اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار فارقلیط بخشے گا جو ابد تک تمہارے ساتھ رہے گا۔ فارقلیط یونانی لفظ ہے اس کا تلفظ Paraclete ہے۔ اس سے مراد ہے عزت یا مدد دینے والا۔ اس کا دوسرا تلفظ فیرقلیط ہے اور یونانی تلفظ Periclite ہے۔ جس سے مراد ہے عزت دینے والا، بلند مرتبہ اور بزرگوار۔ یہ محمد اور محمود کے قریب المعنی ہے۔

واضح رہے کہ یہ لوگ توریت اور انجیل کا جب کسی زبان میں ترجمہ کرتے ہیں تو ان کی یہ عادت عام ہے کہ اصل نام کی جگہ اس کا ترجمہ کر دیتے ہیں۔ یہاں بھی فیرقلیط کی جگہ ”مددگار“ رکھ دیا ہے۔ مزید معلومات کے لیے سورﮤ صف آیت 6 ملاحظہ فرمائیں۔

اس رسول کے اہم اوصاف جو توریت و انجیل میں بیان ہوئے ہیں یہ ہیں کہ وہ :٭اچھی باتوں کی دعوت دے گا اور بری باتوں سے روکے گا۔ یاد رہے کہ اسلامی تعلیمات کو زندہ رکھنے اور امت میں اخلاقی اور اجتماعی اقدار کا شعور بیدار کرنے کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک انسان ساز نظام ہے۔٭وہ پاکیزہ چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دے گا۔٭ وہ انسانوں کو ناروا قید و بند سے آزادی دلائے گا۔

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَۨا الَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ۪ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہِ النَّبِیِّ الۡاُمِّیِّ الَّذِیۡ یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ کَلِمٰتِہٖ وَ اتَّبِعُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ﴿۱۵۸﴾

۱۵۸۔ کہدیجئے: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا (بھیجا ہوا) رسول ہوں جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندگی اور وہی موت دیتا ہے، لہٰذا تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ، اس امی نبی پر جو اللہ اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو شاید تم ہدایت حاصل کر لو۔

وَ مِنۡ قَوۡمِ مُوۡسٰۤی اُمَّۃٌ یَّہۡدُوۡنَ بِالۡحَقِّ وَ بِہٖ یَعۡدِلُوۡنَ﴿۱۵۹﴾

۱۵۹۔اور قوم موسیٰ میں ایک جماعت ایسی تھی جو حق کے مطابق رہنمائی اور اسی کے مطابق عدل کرتی تھی۔

159۔ بنی اسرائیل کی تاریخ اور ان کی سیرت و کردار کے بیان سے ایسا لگتا تھا کہ پوری کی پوری قوم سراپا جرائم سے ڈھکی ہوئی ہے۔ قرآن انصاف کا حق ادا کرتے ہوئے اس بات کو واضح کرتا ہے، ایسا بھی نہیں کہ پوری قوم بدکردار ہو بلکہ ان میں ایک جماعت حق پر قائم تھی اور دوسروں کو حق کی طرف بلاتی رہی اور حق کے مطابق انصاف پر بھی قائم رہی۔ سلسلہ کلام اور سیاق آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عصر موسیٰ علیہ السلام کے بنی اسرائیل کے بارے میں ہے نہ کہ نزول قرآن کے زمانے کے۔

وَ قَطَّعۡنٰہُمُ اثۡنَتَیۡ عَشۡرَۃَ اَسۡبَاطًا اُمَمًا ؕ وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی اِذِ اسۡتَسۡقٰىہُ قَوۡمُہٗۤ اَنِ اضۡرِبۡ بِّعَصَاکَ الۡحَجَرَ ۚ فَانۡۢبَجَسَتۡ مِنۡہُ اثۡنَتَا عَشۡرَۃَ عَیۡنًا ؕ قَدۡ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشۡرَبَہُمۡ ؕ وَ ظَلَّلۡنَا عَلَیۡہِمُ الۡغَمَامَ وَ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡہِمُ الۡمَنَّ وَ السَّلۡوٰی ؕ کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰکُمۡ ؕ وَ مَا ظَلَمُوۡنَا وَ لٰکِنۡ کَانُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ﴿۱۶۰﴾

۱۶۰۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو بارہ قبیلوں میں تقسیم کر کے جدا جدا جماعتیں بنائیں اور جب ان کی قوم نے ان سے پانی طلب کیا تو ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنا عصا پتھر پر مارو، چنانچہ اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے، ہر جماعت نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر لیا اور ہم نے ان کے سروں پر بادل کا سائبان بنایا اور ان پر من و سلویٰ نازل کیا، جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عنایت کی ہیں انہیں کھاؤ اور (بعد میں نافرمانی کی وجہ سے) یہ لوگ ہم پر نہیں بلکہ خود اپنے اوپر ظلم کرتے تھے۔

160۔ بنی اسرائیل کی سرکشیوں کا ذکر کرنے کے بعد ان انعامات و احسانات کا ذکر ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو نوازا ہے۔ توریت میں آیا ہے کہ بنی اسرائیل نے جب صحرائے سینا میں نزول کیا تو ان میں بیس سال سے زائد عمر کے افراد کی تعداد جو جنگ میں شرکت کرنے کے قابل تھے چھ لاکھ سے زائد تھی۔ اس طرح کل تعداد پندرہ سے بیس لاکھ تک ہو سکتی ہے۔ ان میں نظم و ضبط قائم رکھنے کے لیے ان کو بارہ قبیلوں میں تقسیم کیا۔ اس خشک بیابان میں پانی فراہم کیا۔ تپتی دھوپ سے بچانے کے لیے بادلوں کا سائباں، کھانے کے لیے من و سلویٰ۔ ان تمام نعمتوں کے باوجود یہ قوم مسلسل غداریوں کا ارتکاب کرتی رہی۔