آیت 163
 

وَ سۡـَٔلۡہُمۡ عَنِ الۡقَرۡیَۃِ الَّتِیۡ کَانَتۡ حَاضِرَۃَ الۡبَحۡرِ ۘ اِذۡ یَعۡدُوۡنَ فِی السَّبۡتِ اِذۡ تَاۡتِیۡہِمۡ حِیۡتَانُہُمۡ یَوۡمَ سَبۡتِہِمۡ شُرَّعًا وَّ یَوۡمَ لَا یَسۡبِتُوۡنَ ۙ لَا تَاۡتِیۡہِمۡ ۚۛ کَذٰلِکَ ۚۛ نَبۡلُوۡہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ﴿۱۶۳﴾

۱۶۳۔اور ان سے اس بستی (والوں) کے بارے میں پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی، جب یہ لوگ ہفتہ کے دن خلاف ورزی کرتے تھے اور مچھلیاں ہفتہ کے دن ان کے سامنے سطح آب پر ابھر آتی تھیں اور ہفتہ کے علاوہ باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں، اس طرح ان کی نافرمانی کی وجہ سے ہم انہیں آزماتے تھے۔

تفسیر آیات

۱۔حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے روایت ہے کہ یہ بستی ایلہ تھی جو اس وقت اسرائیلی حکومت کی بندرگاہ ہے۔

۲۔ یہ واقعہ توریت میں مذکور نہیں ہے۔ تاہم یہود کی دیگر تاریخی کتابوں میں اس واقعہ کا ذکر ہے اور ان میں یوم سبت کی بے حرمتی کو یہودیوں کے بڑے جرائم میں شمار کیا ہے۔

۳۔ ہفتہ کے دن مچھلیوں کا ابھر آنا حکمت امتحان کے مطابق ایک اصلاحی عمل تھا، جس سے کامیاب اور ناکارہ لوگ چھن کر الگ ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا :

اِنۡ ہِیَ اِلَّا فِتۡنَتُکَ ؕ تُضِلُّ بِہَا مَنۡ تَشَآءُ وَ تَہۡدِیۡ مَنۡ تَشَآءُ ۔۔۔۔ (۷ اعراف: ۱۵۵)

یہ تو تیری ایک آزمائش تھی جس سے جسے تو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ جب کسی کی آزمائش کرنا چاہتا ہے تو ا س کے لیے نافرمانی اور معصیت کے مواقع فراہم کرتا ہے تاکہ ا س کے اندر چھپا ہوا کفر و عصیان نمایاں ہو جائے۔

لہٰذا بعض مفسرین کا یہ کہنا نہایت تعجب خیز ہے کہ اہل سنت نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صادر ہونے والے احکام میں مصلحت ہونا ضروری نہیں ہے، نہ دین میں نہ دنیا میں۔ کیونکہ اللہ کو علم تھا کہ ہفتہ کے دن مچھلیاں وافر مقدار میں نمودار ہونے سے لوگ گناہ اور کفر میں مبتلا ہو جائیں گے۔ اگر اللہ پر صلاح اور اصلح کے مطابق عمل کرنا لازم ہوتا تو اس دن مچھلیوں کو ابھر آنے کا موقع ہی نہیں دینا چاہیے تھا تاکہ وہ کفر و معصیت میں مبتلا نہ ہوں۔ (تفسیر المنیر ۹ : ۱۴۵)

اس نظریے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اللہ کا دین اور اس کی شریعت کا طبیعی قوانین، تکوینی امور اور فطری تقاضوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ نہ شریعت کے احکام میں دین و دنیا کی مصلحت کار فرما ہوتی ہے، نہ فطری و تکوینی امور میں دینی مصالح کا لحاظ کیا جاتا ہے بلکہ دینی دستورات حکمت و مصلحت سے خالی ایک قید و بند ہیں اوران کا اس دنیا پر حاکم تمام تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا ضروری نہیں ہے۔ صرف یہ کہ آخرت میں ان کا اجر و ثواب ہو گا۔ البتہ اللہ فعال لما یشاء ہے لیکن اللہ کی مشیت اندھی بانٹ نہیں ہے۔ اللہ نے خود اپنی ذات پر حکیمانہ عمل لازم قرار دیا ہے، کسی مخلوق کی طرف سے نہیں۔ جیسے کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ ۔ ( ۶ انعام:۵۴) تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو لازم قرار دیا ہے۔

عقل و خرد سے خالی اس نظریہ کی رد بھی خود اس نظریے میں موجود ہے تاہم یہ بات سب کے لیے عیاں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نظام امتحان و آزمائش کی بنیاد پر ہے اور امتحان اختیار کی صورت میں قائم ہو سکتا ہے۔ جبر کی صورت میں نہیں کہ ہفتے کے دن مچھلیوں کو سطح آب پر آنے نہ دے اور لوگوں کو گناہ سے طاقت کے ذریعہ روک دے یا ایسی صورت بنا دے کہ لوگوں سے گناہ سرزد ہی نہ ہو سکے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ نَبۡلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَ الۡخَیۡرِ فِتۡنَۃً ۔۔۔ (۲۱ الانبیاء:۳۵)

ہم امتحان کے طور پر برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہیں مبتلا کرتے ہیں۔

وَ بَلَوۡنٰہُمۡ بِالۡحَسَنٰتِ وَ السَّیِّاٰتِ ۔۔۔۔ (۷ اعراف: ۱۶۸)

ہم نے آسائشوں اور تکلیفوں کے ذریعے انہیں آزمایا۔


آیت 163