فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ خَلۡفٌ وَّرِثُوا الۡکِتٰبَ یَاۡخُذُوۡنَ عَرَضَ ہٰذَا الۡاَدۡنٰی وَ یَقُوۡلُوۡنَ سَیُغۡفَرُ لَنَا ۚ وَ اِنۡ یَّاۡتِہِمۡ عَرَضٌ مِّثۡلُہٗ یَاۡخُذُوۡہُ ؕ اَلَمۡ یُؤۡخَذۡ عَلَیۡہِمۡ مِّیۡثَاقُ الۡکِتٰبِ اَنۡ لَّا یَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الۡحَقَّ وَ دَرَسُوۡا مَا فِیۡہِ ؕ وَ الدَّارُ الۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لِّلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ﴿۱۶۹﴾

۱۶۹۔ پھر ان کے بعد ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جو کتاب اللہ کے وارث بن کر اس ادنیٰ زندگی کا مال و متاع سمیٹتے تھے اور کہتے تھے: ہم جلد ہی بخش دیے جائیں گے اور اگر ایسی ہی اور متاع ان کے سامنے آ جائے تو اسے بھی اچک لیتے، کیا ان سے کتاب کا میثاق نہیں لیا گیا تھا کہ وہ اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ بھی نہ کہیں گے اور جو کچھ کتاب کے اندر ہے اسے یہ لوگ پڑھ چکے ہیں اور اہل تقویٰ کے لیے آخرت کی زندگی ہی بہترین زندگی ہے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟

169۔ بنی اسرائیل میں ایک زمانہ تک کچھ لوگ نیک اور صالح رہے ہیں،لیکن بعد میں ان کی جگہ ایسے ناخلف لوگوں نے لی جنہوں نے کتاب خدا کو پڑھ لیا حلال و حرام سے واقف ہوئے، لیکن ان سے مثبت اثر لینے کی بجائے ان لوگوں نے نا جائز ذرائع سے دنیاوی مال و متاع سمیٹنا شروع کیا۔

اور یہ کہ ان گناہوں کے ارتکاب پر نالاں ہونے کی بجائے وہ نازاں تھے اور کہتے تھے: سَیُغۡفَرُ لَنَا ہم بخشے جائیں گے۔ کیونکہ ہم اللہ کی برگزیدہ قوم ہیں ہم کو اللہ عذاب نہیں دے گا لَنۡ تَمَسَّنَا النَّارُ (آل عمران: 24) آتش جہنم ہمارے نزدیک نہیں آئے گی۔ یہ بات اللہ پر بہتان و افتراء پردازی ہے۔ حالانکہ ان سے عہد و میثاق لیا گیا تھا کہ وہ اس قسم کی ناحق نسبت اللہ کی طرف نہ دیں۔