بنی اسرائیل کے تین گروہ


وَ اِذۡ قَالَتۡ اُمَّۃٌ مِّنۡہُمۡ لِمَ تَعِظُوۡنَ قَوۡمَۨا ۙ اللّٰہُ مُہۡلِکُہُمۡ اَوۡ مُعَذِّبُہُمۡ عَذَابًا شَدِیۡدًا ؕ قَالُوۡا مَعۡذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ﴿۱۶۴﴾

۱۶۴۔اور جب ان میں سے ایک فرقے نے کہا:ان لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاکت یا شدید عذاب میں ڈالنے والا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: (ہم یہ نصیحت) تمہارے رب کی بارگاہ میں عذر پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور(اس لیے بھی کہ) شاید وہ تقویٰ اختیار کریں۔

164۔ اس آیت میں تین گروہوں کا ذکر ہے: ایک گروہ وہ جس نے یوم سبت کے جرم کا ارتکاب کیا۔ دوسرا گروہ وہ جو اس گروہ کو ایسا نہ کرنے کی نصیحت کرتا تھا۔ تیسرا گروہ وہ جو ان کی اصلاح سے مایوس تھا اور نصیحت کے حق میں نہ تھا۔

فَلَمَّا نَسُوۡا مَا ذُکِّرُوۡا بِہٖۤ اَنۡجَیۡنَا الَّذِیۡنَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ السُّوۡٓءِ وَ اَخَذۡنَا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا بِعَذَابٍۭ بَئِیۡسٍۭ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ﴿۱۶۵﴾

۱۶۵۔پس جب انہوں نے وہ باتیں فراموش کر دیں جن کی انہیں نصیحت کی گئی تھی تو ہم نے برائی سے روکنے والوں کو نجات دی اور ظالموں کو ان کی نافرمانی کی وجہ سے برے عذاب میں مبتلا کر دیا۔

165۔ اس آیت میں دو گروہوں کا ذکر صریح لفظوں میں ہے: ایک وہ جنہوں نے وعظ و نصیحت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری پوری کی اور نجات پائی۔ دوسرا وہ جس نے عدم تأثیر کا بہانہ کرکے اس ذمہ داری سے پہلوتہی کی۔