آیت 164
 

وَ اِذۡ قَالَتۡ اُمَّۃٌ مِّنۡہُمۡ لِمَ تَعِظُوۡنَ قَوۡمَۨا ۙ اللّٰہُ مُہۡلِکُہُمۡ اَوۡ مُعَذِّبُہُمۡ عَذَابًا شَدِیۡدًا ؕ قَالُوۡا مَعۡذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ﴿۱۶۴﴾

۱۶۴۔اور جب ان میں سے ایک فرقے نے کہا:ان لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاکت یا شدید عذاب میں ڈالنے والا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: (ہم یہ نصیحت) تمہارے رب کی بارگاہ میں عذر پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور(اس لیے بھی کہ) شاید وہ تقویٰ اختیار کریں۔

تفسیر آیات

اس آیت میں تین گروہ کا ذکر ہے: ایک گروہ وہ جس نے یوم سبت کے جرم کا ارتکاب کیا ۔ دوسرا گروہ وہ جو اس گروہ کو ایسا نہ کرنے کی نصیحت کرتا تھا۔ تیسرا گروہ وہ جو ان کی اصلاح سے مایوس تھا اور نصیحت کے حق میں نہ تھا۔

ان تین گروہوں میں سے وہ گروہ جو امر بمعروف اور نہی از منکر کا فریضہ ادا کر رہا تھا، اس پر دوسرے گروہ کا اعتراض آیا کہ یہ لوگ قابل ہدایت نہیں ہیں، ان کو راہ راست پر لانے کی کوشش بے ثمر رہے گی۔

ناصح گروہ نے اپنے موقف کے حق میں دو دلائل پیش کیے:

الف: مَعۡذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمۡ: تمہارے رب کی بارگاہ میں عذر پیش کرنے کے لیے ہم ان کی نصیحت کر رہے ہیں۔ عذر کا مضمون یہ ہو گا: خدایا ہم ان کے اس عمل زشت کے حق میں نہ تھے اور انہیں نصیحت کر کے ہم نے اپنی بیزاری کا اظہار کیا ہے۔

ب: یہ کہ ہم ان نصیحتوں کے بے اثر ہونے کے قائل نہیں ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ان نصیحتوں کا کچھ لوگوں پر اثر ہو گا۔ اسلامی تعلیمات بھی یہی ہیں۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے۔

من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ ان ذلک اضعف الایمان ۔ ( مستدرک الوسائل ۱۲:۱۹۲۔ صحیح مسلم کتاب الایمان حدیث: ۷۰)

تم میں سے کوئی کسی برائی کو دیکھ لے تو اسے اپنی طاقت سے روک دے۔ نہ ہو سکے تو اپنی زبان سے روک دے۔ نہ ہو سکے تو اپنے دل سے (بیزاری کرے)۔ یہ کمزور ترین ایمان ہے۔

اہم نکات

۱۔ وعظ و نصیحت اور امر بمعروف اور نہی از منکر نہ کرنے کی صورت میں اللہ کے سامنے معذرت کی گنجائش نہیں ہے: مَعۡذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمۡ ۔۔۔۔

۲۔ ہدایت و اصلاح سے جلدی مایوس نہیں ہونا چاہیے: وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ ۔


آیت 164