وَ سۡـَٔلۡہُمۡ عَنِ الۡقَرۡیَۃِ الَّتِیۡ کَانَتۡ حَاضِرَۃَ الۡبَحۡرِ ۘ اِذۡ یَعۡدُوۡنَ فِی السَّبۡتِ اِذۡ تَاۡتِیۡہِمۡ حِیۡتَانُہُمۡ یَوۡمَ سَبۡتِہِمۡ شُرَّعًا وَّ یَوۡمَ لَا یَسۡبِتُوۡنَ ۙ لَا تَاۡتِیۡہِمۡ ۚۛ کَذٰلِکَ ۚۛ نَبۡلُوۡہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ﴿۱۶۳﴾ ۞ؒ

۱۶۳۔اور ان سے اس بستی (والوں) کے بارے میں پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی، جب یہ لوگ ہفتہ کے دن خلاف ورزی کرتے تھے اور مچھلیاں ہفتہ کے دن ان کے سامنے سطح آب پر ابھر آتی تھیں اور ہفتہ کے علاوہ باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں، اس طرح ان کی نافرمانی کی وجہ سے ہم انہیں آزماتے تھے۔

163۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ یہ قریہ (بستی) ایلہ تھا۔

سبت (ہفتہ) کے دن مچھلیوں کا پانی کی سطح پر ابھر آنا حکمت امتحان کے مطابق ایک اصلاحی عمل تھا جس سے کامیاب و ناکام لوگ چھن کر الگ ہو گئے۔ سبت عبرانی لفظ شبت کی تعریب شدہ شکل ہے۔ اس کا لغوی معنی ختم کرنا اور آرام کرنا ہے۔ یہ دن یہودیوں کا ہفتہ وار آرام اور پرستش کا دن ہے۔اس کی تاریخ آغازِ آفرینش جتنی ہی پرانی ہے۔ اس سلسلے میں تورات کا بیان یہ ہے: سو آسمان اور زمین اور ان کے کل لشکر کا بنانا ختم ہوا اور خدا نے اپنے کام کو جسے وہ کرتا تھا ساتویں دن ختم کیا اور خدا نے ساتویں دن کو برکت دی اور اسے مقدس ٹھہرایا، کیونکہ اس میں خدا ساری کائنات سے، جسے اس نے پیدا کیا اور بنایا، فارغ ہوا۔ (تورات پیدائش باب 2 آیات 1۔3)