قوم کی ضد اور ہٹ دھرمی


اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَخۡبَتُوۡۤا اِلٰی رَبِّہِمۡ ۙ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اور اپنے رب کے سامنے عاجزی کرتے رہے یقینا یہی اہل جنت ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

23۔ انبیاء کو جھٹلانے والی جماعت کے برعکس اہل ایمان اپنے پروردگار کے سامنے تواضع اور عاجزی کرتے ہیں جو ایمان کا بہترین مظہر اور ایمان کی پختگی پر بہت بڑی دلیل ہے۔ عبادت اور خضوع کو ذوق بندگی سے محروم لوگ انسان کی توہین اور ذلت پسندی سمجھتے ہیں، جب کہ خدا کی معرفت رکھنے والے اس کمال مطلق کے سامنے تواضع اور عاجزی کو اپنے لیے معراج سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کمال کے سامنے اکڑ جاتے ہے وہی لوگ انسانی اقدار سے محروم اور ذلت پسند ہوتے ہیں۔

مَثَلُ الۡفَرِیۡقَیۡنِ کَالۡاَعۡمٰی وَ الۡاَصَمِّ وَ الۡبَصِیۡرِ وَ السَّمِیۡعِ ؕ ہَلۡ یَسۡتَوِیٰنِ مَثَلًا ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ﴿٪۲۴﴾

۲۴۔ دونوں فریقوں (مومنوں اور کافروں) کی مثال ایسی ہے جیسے (ایک طرف) اندھا اور بہرا ہو اور (دوسری طرف) دیکھنے والا اور سننے والا ہو، کیا یہ دونوں یکساں ہو سکتے ہیں؟ کیا تم نصیحت نہیں لیتے؟

24۔ دونوں فریقوں کی صورت حال کی ایک محسوس اور سادہ مثال۔ مومن اپنی عقل سے کام لینے کے لیے اپنے اعضا و جوارح سے کام لیتا ہے۔ وہ دیکھتا اور سنتا ہے، پھر سمجھتا ہے اس پر عمل کرتا ہے، نجات اور کامیابی نصیب ہو جاتی ہے۔ کافر اپنے اعضا سے کام نہیں لیتا، نہ بصارت سے، نہ سماعت سے اور نتیجتاً نہ عقل سے، لہٰذا وہ نہ ہدایت حاصل کر سکتا ہے نہ نصیحت سن سکتا ہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ ایسا سوال ہے جس کا جواب واضح ہے۔

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖۤ ۫ اِنِّیۡ لَکُمۡ نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۙ۲۵﴾

۲۵۔ اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا، (انہوں نے اپنی قوم سے کہا) میں تمہیں صریحاً تنبیہ کرنے والا ہوں۔

25۔تاریخ انبیاء میں حضرت آدم علیہ السلام کے بعد ابو الانبیاء، بت پرستی کے خلاف سب سے پہلے مجاہد اور تاریخ تمدن میں سب سے پہلی شریعت پیش کرنے والے اولوالعزم پیغمبر حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر ہے، جنہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم جن مہلک خطرات میں گھرے ہوئے ہو اور جس انجام سے تمہیں دو چار ہونا ہو گا، اس سے بچانے اور تنبیہ کرنے آیا ہوں اور یہ سمجھانے آیا ہوں کہ صرف اللہ کی عبادت کرو، بت پرستی چھوڑ دو۔

اَنۡ لَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ؕ اِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ عَذَابَ یَوۡمٍ اَلِیۡمٍ﴿۲۶﴾

۲۶۔ کہ تم غیر اللہ کی عبادت نہ کرو، مجھے تمہارے بارے میں ایک دردناک دن کے عذاب کا ڈر ہے۔

فَقَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ مَا نَرٰىکَ اِلَّا بَشَرًا مِّثۡلَنَا وَ مَا نَرٰىکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیۡنَ ہُمۡ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاۡیِ ۚ وَ مَا نَرٰی لَکُمۡ عَلَیۡنَا مِنۡ فَضۡلٍۭ بَلۡ نَظُنُّکُمۡ کٰذِبِیۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ تو ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا: ہماری نظر میں تو تم صرف ہم جیسے بشر ہو اور ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہم میں سے ادنیٰ درجے کے لوگ سطحی سوچ سے تمہاری پیروی کر رہے ہیں اور ہمیں کوئی ایسی بات بھی نظر نہیں آتی جس سے تمہیں ہم پر فضیلت حاصل ہو بلکہ ہم تو تمہیں کاذب خیال کرتے ہیں۔

27۔ مادی نظریہ رکھنے والی، قدیم و جدید جاہلیت، انسان کو انسانی نہیں بلکہ مادی اقدار میں تولتی ہے۔ فقیر اور نادار لوگ انبیاء کی دعوت پر لبیک کہنے میں غالباً پہل کرتے ہیں۔ ان پر مادیت غالب نہ آنے کی وجہ سے ان کی روح شفاف ہوتی ہے اور باطن صاف ہوتا ہے۔

بَادِيَ الرَّاْيِ : منکرین کا خیال یہ ہوتا ہے کہ دین کو قبول کرنے والے، سطحی سوچ کے مالک، کم فکر لوگ ہوتے ہیں جن کی فکری بلوغت اس حدتک نہیں ہوتی کہ ان کے ایمان کو کوئی وزن دیا جائے۔ آج کے منکرین اور مستکبرین، اہل ایمان کو قدامت پسند، سادہ لوح اور ناخواندہ کہتے ہیں۔ اسی لیے وہ ان کے لیے کسی قدر و منزلت اور خاص حیثیت کے قائل نہیں ہوتے۔

قَالَ یٰقَوۡمِ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ کُنۡتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّیۡ وَ اٰتٰىنِیۡ رَحۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِہٖ فَعُمِّیَتۡ عَلَیۡکُمۡ ؕ اَنُلۡزِمُکُمُوۡہَا وَ اَنۡتُمۡ لَہَا کٰرِہُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔(نوح نے) کہا: اے میری قوم! مجھے بتاؤ اگر میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل رکھتا ہوں اور اس نے مجھے اپنی رحمت سے نوازا ہے مگر وہ تمہیں نہ سوجھتی ہو تو کیا ہم تمہیں اس پر مجبور کر سکتے ہیں جبکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو؟

28۔ سابقہ آیات میں منکرین کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات میں سے ایک ایک کا جواب ہے۔ پہلا شبہ یہ تھا کہ تم ہم جیسے بشر ہو۔ اس کے جواب میں فرمایا: میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل رکھتا ہوں کہ میں اس کا نمائندہ ہوں۔ اس نے مجھے اپنی رحمت یعنی نبوت سے نوازا ہے۔ پھر بھی میں تم جیسا ہوں۔

وَ یٰقَوۡمِ لَاۤ اَسۡئَلُکُمۡ عَلَیۡہِ مَالًا ؕ اِنۡ اَجۡرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ اِنَّہُمۡ مُّلٰقُوۡا رَبِّہِمۡ وَ لٰکِنِّیۡۤ اَرٰىکُمۡ قَوۡمًا تَجۡہَلُوۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ اور اے میری قوم! میں اس کام پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف اللہ پر ہے اور میں ان لوگوں کو اپنے سے دور بھی نہیں کر سکتا جو ایمان لا چکے ہیں، یقینا یہ لوگ اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہونے والے ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جاہل قوم ہو۔

29۔ دوسرا شبہ یہ تھا کہ تمہاری پیروی ادنیٰ درجے کے لوگ کر رہے ہیں۔ اس آیت میں اس کا جواب دیا گیا ہے: انبیاء علیہ السلام لوگوں کے مال و دولت سے بے نیاز ہوتے ہیں، لہٰذا ان کے سامنے امیر و فقیر یکساں ہوتے ہیں۔ ہدایت و رہنمائی کا بھی لوگوں سے کسی قسم کا معاوضہ نہیں مانگا جاتا۔ اس لیے دعوت انبیاء علیہ السلام کے بارے میں فقیر و امیر کا سوال بے معنی ہو جاتا ہے۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ جن لوگوں نے اس دعوت پر لبیک کہی ہے، ان کو صرف فقیر و نادار ہونے کی بنیاد پر دھتکار دیا جائے۔

وَ یٰقَوۡمِ مَنۡ یَّنۡصُرُنِیۡ مِنَ اللّٰہِ اِنۡ طَرَدۡتُّہُمۡ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔ اور اے میری قوم! اگر میں انہیں دور کروں تو مجھے اللہ (کے قہر) سے کون بچائے گا؟ کیا تم نصیحت نہیں لیتے ؟

وَ لَاۤ اَقُوۡلُ لَکُمۡ عِنۡدِیۡ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَاۤ اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ وَ لَاۤ اَقُوۡلُ اِنِّیۡ مَلَکٌ وَّ لَاۤ اَقُوۡلُ لِلَّذِیۡنَ تَزۡدَرِیۡۤ اَعۡیُنُکُمۡ لَنۡ یُّؤۡتِیَہُمُ اللّٰہُ خَیۡرًا ؕ اَللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ ۚۖ اِنِّیۡۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۳۱﴾

۳۱۔ اور میں تم سے نہ تو یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور جنہیں تمہاری نگاہیں حقیر سمجھتی ہیں ان کے بارے میں یہ نہیں کہتا کہ اللہ انہیں بھلائی سے نہیں نوازے گا، ان کے دلوں کا حال اللہ بہتر جانتا ہے، اگر میں ایسا کہوں تو میں ظالموں میں سے ہو جاؤں گا۔

31۔ منکرین کا تیسرا شبہ یہ تھا کہ تمہیں ہم پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ فضیلت کے جاہلی معیار کی اس آیت میں نفی کی گئی ہے کہ نہ میرے پاس اللہ کے خزانوں کی کنجیاں ہیں کہ جس کو چاہوں دولت سے مالا مال کروں، نہ کاہنوں کی طرح غیب دانی کا دعویٰ کرتا ہوں۔ میں نے کبھی فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا، میں انسان ہوں، کھاتا پیتا چلتا پھرتا ہوں۔ رسول کا کام انسان کی ہدایت و رہبری اور اللہ کی طرف سے دستور حیات دینا ہے، مگر جاہلی طرز فکر کے مطابق رسول کو مافوق البشر خزانوں کا مالک اور غیب دان ہونا چاہیے۔

قَالُوۡا یٰنُوۡحُ قَدۡ جٰدَلۡتَنَا فَاَکۡثَرۡتَ جِدَالَنَا فَاۡتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ﴿۳۲﴾

۳۲۔ لوگوں نے کہا: اے نوح! تم نے ہم سے بحث کی ہے اور بہت بحث کی اور اب اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔

قَالَ اِنَّمَا یَاۡتِیۡکُمۡ بِہِ اللّٰہُ اِنۡ شَآءَ وَ مَاۤ اَنۡتُمۡ بِمُعۡجِزِیۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔ کہا: اسے تو بے شک اللہ ہی تم پر لائے گا اگر وہ چاہے اور تم (اسے) عاجز تو نہیں کر سکتے ۔

32۔33۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم جب حجت و دلیل کا مقابلہ نہ کر سکی تو دلیل کی جگہ چیلنج کو اختیار کیا اور اسی تحقیری اور تکذیبی لہجے میں کہا: وہ عذاب لے آؤ جس سے ہمیں ڈراتے رہے ہو اگر تم سچے ہو۔ یعنی تمہارا دعوائے نبوت سچا ہے اور نہ عذاب کی دھمکی۔

لوگوں نے عذاب لانے کی نسبت حضرت نوح علیہ السلام کی طرف دی لیکن حضرت نوح علیہ السلام نے یہ نسبت اللہ کی طرف دے کر یہ واضح کر دیا کہ میں خود بھی مشیت الٰہی کے تابع ہوں۔ عذاب لانا نہ لانا میرے اختیار میں نہیں ہے، بلکہ یہ عذاب اللہ کی مشیت کے مطابق آئے گا۔