آیات 32 - 33
 

قَالُوۡا یٰنُوۡحُ قَدۡ جٰدَلۡتَنَا فَاَکۡثَرۡتَ جِدَالَنَا فَاۡتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ﴿۳۲﴾

۳۲۔ لوگوں نے کہا: اے نوح! تم نے ہم سے بحث کی ہے اور بہت بحث کی اور اب اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔

قَالَ اِنَّمَا یَاۡتِیۡکُمۡ بِہِ اللّٰہُ اِنۡ شَآءَ وَ مَاۤ اَنۡتُمۡ بِمُعۡجِزِیۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔ کہا: اسے تو بے شک اللہ ہی تم پر لائے گا اگر وہ چاہے اور تم (اسے) عاجز تو نہیں کر سکتے ۔

تشریح کلمات

الجدل:

( ج د ل ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا کے ہیں جس میں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اصل میں جدلت الحبل سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا۔ اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے۔

تفسیر آیات

حضرت نوح علیہ السلام کی قوم جب حجت و دلیل کا مقابلہ نہ کر سکی تو دلیل کی جگہ چیلنج کو اختیار کیا اور اسی تحقیری اور تکذیبی لہجے میں کہا: وہ عذاب لے آؤ جس سے ہم کو ڈراتے رہے ہو اگر تم سچے ہو۔ یعنی تمہارا دعوائے نبوت سچا ہے اور نہ عذاب کی دھمکی۔

لوگوں نے عذاب لانے کی نسبت حضرت نوح علیہ السلام کی طرف دی لیکن حضرت نوح علیہ السلام نے یہ نسبت اللہ کی طرف دے کر یہ واضح کر دیا کہ میں خود بھی مشیت الٰہی کے تابع ہوں۔ عذاب لانا، نہ لانا میرے اختیار میں نہیں ہے بلکہ عذاب اللہ کی مشیت کے مطابق آئے گا۔

اہم نکات

۱۔ عذاب آنے سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام ایک لمبی مدت تک لوگوں کو دلائل سے راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے رہے: فَاَکۡثَرۡتَ جِدَالَنَا ۔۔۔۔


آیات 32 - 33