آیات 29 - 30
 

وَ یٰقَوۡمِ لَاۤ اَسۡئَلُکُمۡ عَلَیۡہِ مَالًا ؕ اِنۡ اَجۡرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ اِنَّہُمۡ مُّلٰقُوۡا رَبِّہِمۡ وَ لٰکِنِّیۡۤ اَرٰىکُمۡ قَوۡمًا تَجۡہَلُوۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ اور اے میری قوم! میں اس کام پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف اللہ پر ہے اور میں ان لوگوں کو اپنے سے دور بھی نہیں کر سکتا جو ایمان لا چکے ہیں، یقینا یہ لوگ اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہونے والے ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جاہل قوم ہو۔

وَ یٰقَوۡمِ مَنۡ یَّنۡصُرُنِیۡ مِنَ اللّٰہِ اِنۡ طَرَدۡتُّہُمۡ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔ اور اے میری قوم! اگر میں انہیں دور کروں تو مجھے اللہ (کے قہر) سے کون بچائے گا؟ کیا تم نصیحت نہیں لیتے ؟

تفسیر آیات

۱۔ وَ یٰقَوۡمِ لَاۤ اَسۡئَلُکُمۡ: دوسرا شبہ یہ تھا کہ تمہاری پیروی کرنے والے ادنی درجے کے لوگ ہیں۔ اس آیت میں اس کا جواب دیا گیا ہے: انبیاء لوگوں کے مال و دولت سے بے نیاز ہوتے ہیں لہٰذا ان کے سامنے امیر و فقیر یکساں ہوتے ہیں۔ ہدایت و رہنمائی کا لوگوں سے کسی قسم کا معاوضہ بھی نہیں مانگا جاتا۔ اس لیے دعوت انبیاء کے بارے میں فقیر و امیر کا سوال بے معنی ہو جاتا ہے۔

۲۔ وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا: لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ جن لوگوں نے اس دعوت پر لبیک کہی ہے ان کو صرف فقیر و نادار ہونے کے بنیاد پر دھتکار دیا جائے۔

۳۔ اِنَّہُمۡ مُّلٰقُوۡا رَبِّہِمۡ: یہ لوگ ایمان کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں اور وہ اپنے رب کی بارگاہ میں جانے والے ہیں۔ وہاں ان کو اپنے اپنے عمل کے مطابق درجہ ملنا ہے۔ میں دنیا میں ان کو مؤمن کا درجہ دیتا ہوں۔

۴۔ وَ لٰکِنِّیۡۤ اَرٰىکُمۡ قَوۡمًا تَجۡہَلُوۡنَ: تم اہل ایمان کو نادار ہونے کی وجہ سے حقیر سمجھتے ہو جب کہ جاہل ہونے کے وجہ سے تم کو بے قیمت سمجھتا ہوں۔ حقیقت امر یہ ہے کہ منکرین، جہالت کی اتاہ گہرائیوں میں سقوط کر رہے ہیں۔ اہل ایمان اپنے رب کی بارگاہ کی طرف کمال و ارتقا کی منازل طے کر رہے ہیں۔

۵۔ مَنۡ یَّنۡصُرُنِیۡ مِنَ اللّٰہِ: ایسے لوگوں کو اپنے سے دور کروں۔ اللہ کے قہر و غضب کا مستحق بنوں تو کون مجھے بچائے گا۔ اس جملے میں اہل ایمان کا اللہ کے نزدیک مقام بیان ہوا ہے۔

اہم نکات

۱۔ سرمایہ دار غریبوں کا استحصال کرنے کے ساتھ ان سے نفرت بھی کرتے ہیں : وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۔۔۔۔ اس لیے انبیاء سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کو دھتکار دو۔


آیات 29 - 30