فَقَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ مَا نَرٰىکَ اِلَّا بَشَرًا مِّثۡلَنَا وَ مَا نَرٰىکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیۡنَ ہُمۡ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاۡیِ ۚ وَ مَا نَرٰی لَکُمۡ عَلَیۡنَا مِنۡ فَضۡلٍۭ بَلۡ نَظُنُّکُمۡ کٰذِبِیۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ تو ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا: ہماری نظر میں تو تم صرف ہم جیسے بشر ہو اور ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہم میں سے ادنیٰ درجے کے لوگ سطحی سوچ سے تمہاری پیروی کر رہے ہیں اور ہمیں کوئی ایسی بات بھی نظر نہیں آتی جس سے تمہیں ہم پر فضیلت حاصل ہو بلکہ ہم تو تمہیں کاذب خیال کرتے ہیں۔

27۔ مادی نظریہ رکھنے والی، قدیم و جدید جاہلیت، انسان کو انسانی نہیں بلکہ مادی اقدار میں تولتی ہے۔ فقیر اور نادار لوگ انبیاء کی دعوت پر لبیک کہنے میں غالباً پہل کرتے ہیں۔ ان پر مادیت غالب نہ آنے کی وجہ سے ان کی روح شفاف ہوتی ہے اور باطن صاف ہوتا ہے۔

بَادِيَ الرَّاْيِ : منکرین کا خیال یہ ہوتا ہے کہ دین کو قبول کرنے والے، سطحی سوچ کے مالک، کم فکر لوگ ہوتے ہیں جن کی فکری بلوغت اس حدتک نہیں ہوتی کہ ان کے ایمان کو کوئی وزن دیا جائے۔ آج کے منکرین اور مستکبرین، اہل ایمان کو قدامت پسند، سادہ لوح اور ناخواندہ کہتے ہیں۔ اسی لیے وہ ان کے لیے کسی قدر و منزلت اور خاص حیثیت کے قائل نہیں ہوتے۔