آیت 27
 

فَقَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ مَا نَرٰىکَ اِلَّا بَشَرًا مِّثۡلَنَا وَ مَا نَرٰىکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیۡنَ ہُمۡ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاۡیِ ۚ وَ مَا نَرٰی لَکُمۡ عَلَیۡنَا مِنۡ فَضۡلٍۭ بَلۡ نَظُنُّکُمۡ کٰذِبِیۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ تو ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا: ہماری نظر میں تو تم صرف ہم جیسے بشر ہو اور ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہم میں سے ادنیٰ درجے کے لوگ سطحی سوچ سے تمہاری پیروی کر رہے ہیں اور ہمیں کوئی ایسی بات بھی نظر نہیں آتی جس سے تمہیں ہم پر فضیلت حاصل ہو بلکہ ہم تو تمہیں کاذب خیال کرتے ہیں۔

تشریح کلمات

الرذل:

( ر ذ ل ) وہ چیز جس سے اس کے ردی ہونے کی وجہ سے بے رغبتی کی جائے۔ اراذل ، ارذل کی جمع ہے جس کے معنی حقیر اور ذلیل شخص کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ مَا نَرٰىکَ اِلَّا بَشَرًا مِّثۡلَنَا: وہ خیال کرتے تھے کہ انسان اللہ کی نمائندگی اور اس بار امانت کے لیے اہل نہیں ہے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ ہم جیسا بشر اور ہماری طرح کا انسان اللہ کی طرف سے رسول نہیں بن سکتا۔

۲۔ وَ مَا نَرٰىکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیۡنَ ہُمۡ اَرَاذِلُنَا: مادی بینش رکھنے والی قدیم و جدید جاہلیت کے لوگ انسان کو مادی قدروں میں تولتے ہیں انسانی قدروں میں نہیں۔ وہ نادار لوگوں کو ادنیٰ درجہ کے سمجھتے ہیں اور دولتمندوں کو اعلیٰ درجہ پر فائز خیال کرتے ہیں۔ غالباً فقیر اور نادار لوگ انبیاء کی دعوت پر لبیک کہنے میں پہل کرتے ہیں کیونکہ ان پر مادیت غالب نہ آنے کی وجہ سے ان کی روح شفاف اور باطن صاف ہوتا ہے۔ مادے کی بندگی سے آزاد ہونے کی وجہ سے وہ اپنے لیے صحیح راستے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔

چھوٹے اور بڑے کا مادی معیار ہر زمانے میں یہی رہا ہے جس کے تحت مال و دولت رکھنے والے کو او نچے طبقہ اور ناداروں کو چھوٹے طبقہ کے لوگ تصور کرتے رہے۔ آج بھی لوگ اسلام کو بعنوان دین و دستور حیات قبول کرنے کے باوجود اسی مادی معیار کے مطابق درجہ بندی کرتے اور مال و دولت کے طبقاتی تفوق کو ہی معیار فضیلت و اہمیت سمجھتے ہیں۔

۳۔ بَادِیَ الرَّاۡیِ: وہ سمجھتے ہیں کہ جو لوگ رسول پر ایمان لائے ہیں وہ سطحی سوچ رکھنے والے کم فکر لوگ ہیں جن کی فکری بلوغت اس حد تک نہیں کہ ان کے ایمان کو کسی اعتبارمیں تولا جائے۔ لہٰذا بڑوں کو ان چھوٹے لوگوں کے ایمان کو اعتنا میں نہیں لانا چاہیے۔ آج کے منکرین اور مستکبرین بھی اہل ایمان کو قدامت پسند سادہ لوح، نادان اور ناخواندہ کہتے ہیں۔

۴۔ وَ مَا نَرٰی لَکُمۡ عَلَیۡنَا: ان منکرین کے موقف کے مطابق اہل ایمان میں کوئی بات ایسی نظر نہیں آتی جس سے ان کو منکرین پر فضلیت حاصل ہو۔ نہ مال و دولت میں ، نہ جاہ سلطنت میں ، نہ فکر و عقل میں بلکہ منکرین کے مطابق دولتمند، افضل، جاہ و حشم والا زیادہ سمجھدار، کرسی و اقتدار کے لائق اور زیادہ عاقل ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسان کو انسانی قدروں سے نہیں بیرونی قدروں سے مقام و منزلت حاصل ہو جاتی ہے۔

۵۔ بَلۡ نَظُنُّکُمۡ کٰذِبِیۡنَ: حضرت نوح علیہ السلام کی تکذیب کرنے والے خود حضرت نوح علیہ السلام کو کاذب سمجھتے تھے کہ رسالت کا دعویٰ جھوٹ ہے۔ اللہ کسی انسان کو اپنا نمائندہ نہیں بناتا۔ آپ ؑپر ایمان لانے والے کم عقل بے حیثیت لوگ ہیں ، نہ مال دولت کے اعتبار سے ان کو ہم پر کوئی فضیلت حاصل ہے۔ لہٰذا دعوائے نبوت میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ محروم طبقہ نے ہمیشہ حق پر لبیک کہا ہے: اِلَّا الَّذِیۡنَ ہُمۡ اَرَاذِلُنَا ۔۔۔۔

۲۔ اہل باطل ہمیشہ اہل حق کی تحقیر کرتے رہے ہیں : اِلَّا الَّذِیۡنَ ہُمۡ اَرَاذِلُنَا ۔۔۔۔

۳۔ متکبرین، دین والوں کی کسی فضلیت کے قائل نہیں ہوتے: وَ مَا نَرٰی لَکُمۡ عَلَیۡنَا مِنۡ فَضۡلٍۭ ۔۔۔۔


آیت 27