آیت 28
 

قَالَ یٰقَوۡمِ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ کُنۡتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّیۡ وَ اٰتٰىنِیۡ رَحۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِہٖ فَعُمِّیَتۡ عَلَیۡکُمۡ ؕ اَنُلۡزِمُکُمُوۡہَا وَ اَنۡتُمۡ لَہَا کٰرِہُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔(نوح نے) کہا: اے میری قوم! مجھے بتاؤ اگر میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل رکھتا ہوں اور اس نے مجھے اپنی رحمت سے نوازا ہے مگر وہ تمہیں نہ سوجھتی ہو تو کیا ہم تمہیں اس پر مجبور کر سکتے ہیں جبکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو؟

تفسیر آیات

سابقہ آیت میں منکرین کی طرف سے اٹھائے گئے شبہات میں سے ایک ایک کا جواب آنے والی چندآیات میں دیا جا رہا ہے۔

۱۔ پہلا شبہ یہ تھا کہ تم ہم جیسے بشر ہو۔ اس کے جواب میں حضرت نوح علیہ السلام نے دو نکتے بیان فرمائے:

اِنۡ کُنۡتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّیۡ: میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل رکھتا ہوں تو بھی تم جیسا ہوں۔ جو ذات ناقابل تردید دلیل کے ذریعے مقام ربوبیت کے ساتھ اتصال میں ہو وہ تم جیسی ہے۔ جو ہستی معرفت کردگار کی اس منزل فائز ہو جس سے وہ خالق اور مخلوق، عبد اور معبود کے درمیان واسطہ فیض بن گئی ہو، وہ تم جیسی ہے۔

ii۔ وَ اٰتٰىنِیۡ رَحۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِہٖ: اس نے مجھے اپنی رحمت سے نوازا اور مجھے نبوت کے درجے پر فائز فرمایا اور جن خصوصیات کی بنا پر اللہ کی طرف سے نمائندگی کرنے کا شرف حاصل کر چکا ہوں پھر بھی میں تم جیسا ہوں ؟

۲۔ فَعُمِّیَتۡ عَلَیۡکُمۡ: بات یہ ہے کہ تم چشم بینا نہیں رکھتے جس کی وجہ سے تم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہو کہ میں کون ہوں ، میرا کیا مقام ہے۔ جو لوگ مادیت کی تہ بہ تہ تاریکیوں میں رہتے ہوں وہ روشنی کی حقیقت اور اس سے محرومی کا ادراک نہیں کر سکتے۔

۳۔ اَنُلۡزِمُکُمُوۡہَا: تمہارا شعور جب اس نور کا ادراک نہیں کر سکتا اور اس نور کے لیے تمہارے دل میں کوئی جگہ نہیں ہے تو ہم جبراً اس نور کو تم پر مسلط نہیں کر سکتے کیونکہ ایمان کی جگہ دل ہے اور دل جبر کو قبول نہیں۔ جبر سے گردنیں جھکتی ہیں دل نہیں۔ دل میں جب آمادگی ہوتی ہے تو وہ نہایت اشتیاق کے ساتھ ایمان کا استقبال کرتا اور اپنی آنکھوں پر بٹھاتا ہے۔ اس کے بعد دل کے لیے ایمان، دل سے بھی زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ اگر دل میں ایمان سے اشتیاق کی جگہ کراہت ہے تو ایمان کے لیے بھی وہ دل مکروہ ہو جاتا ہے اور اس کے نزدیک جانا گوارا نہیں کرتا۔

اہم نکات

۱۔ عام بشر اور انبیاء میں مایۂ امتیاز دلیل و رحمت الٰہی ہے: عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّیۡ وَ اٰتٰىنِیۡ رَحۡمَۃً ۔۔۔۔

۲۔ شریعت کی ابتدا حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں ہوئی۔ جب سے آج تک دین میں جبر کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے: اَنُلۡزِمُکُمُوۡہَا ۔۔۔۔

۳۔ دین ہمیشہ دلیل کے ساتھ اپنا موقف پیش کرتا ہے: عَلٰی بَیِّنَۃٍ ۔۔۔۔


آیت 28