وَ یٰقَوۡمِ لَاۤ اَسۡئَلُکُمۡ عَلَیۡہِ مَالًا ؕ اِنۡ اَجۡرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ اِنَّہُمۡ مُّلٰقُوۡا رَبِّہِمۡ وَ لٰکِنِّیۡۤ اَرٰىکُمۡ قَوۡمًا تَجۡہَلُوۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ اور اے میری قوم! میں اس کام پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف اللہ پر ہے اور میں ان لوگوں کو اپنے سے دور بھی نہیں کر سکتا جو ایمان لا چکے ہیں، یقینا یہ لوگ اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہونے والے ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جاہل قوم ہو۔

29۔ دوسرا شبہ یہ تھا کہ تمہاری پیروی ادنیٰ درجے کے لوگ کر رہے ہیں۔ اس آیت میں اس کا جواب دیا گیا ہے: انبیاء علیہ السلام لوگوں کے مال و دولت سے بے نیاز ہوتے ہیں، لہٰذا ان کے سامنے امیر و فقیر یکساں ہوتے ہیں۔ ہدایت و رہنمائی کا بھی لوگوں سے کسی قسم کا معاوضہ نہیں مانگا جاتا۔ اس لیے دعوت انبیاء علیہ السلام کے بارے میں فقیر و امیر کا سوال بے معنی ہو جاتا ہے۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ جن لوگوں نے اس دعوت پر لبیک کہی ہے، ان کو صرف فقیر و نادار ہونے کی بنیاد پر دھتکار دیا جائے۔