وَ لَاۤ اَقُوۡلُ لَکُمۡ عِنۡدِیۡ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَاۤ اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ وَ لَاۤ اَقُوۡلُ اِنِّیۡ مَلَکٌ وَّ لَاۤ اَقُوۡلُ لِلَّذِیۡنَ تَزۡدَرِیۡۤ اَعۡیُنُکُمۡ لَنۡ یُّؤۡتِیَہُمُ اللّٰہُ خَیۡرًا ؕ اَللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ ۚۖ اِنِّیۡۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۳۱﴾

۳۱۔ اور میں تم سے نہ تو یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور جنہیں تمہاری نگاہیں حقیر سمجھتی ہیں ان کے بارے میں یہ نہیں کہتا کہ اللہ انہیں بھلائی سے نہیں نوازے گا، ان کے دلوں کا حال اللہ بہتر جانتا ہے، اگر میں ایسا کہوں تو میں ظالموں میں سے ہو جاؤں گا۔

31۔ منکرین کا تیسرا شبہ یہ تھا کہ تمہیں ہم پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ فضیلت کے جاہلی معیار کی اس آیت میں نفی کی گئی ہے کہ نہ میرے پاس اللہ کے خزانوں کی کنجیاں ہیں کہ جس کو چاہوں دولت سے مالا مال کروں، نہ کاہنوں کی طرح غیب دانی کا دعویٰ کرتا ہوں۔ میں نے کبھی فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا، میں انسان ہوں، کھاتا پیتا چلتا پھرتا ہوں۔ رسول کا کام انسان کی ہدایت و رہبری اور اللہ کی طرف سے دستور حیات دینا ہے، مگر جاہلی طرز فکر کے مطابق رسول کو مافوق البشر خزانوں کا مالک اور غیب دان ہونا چاہیے۔