آیات 25 - 26
 

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖۤ ۫ اِنِّیۡ لَکُمۡ نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۙ۲۵﴾

۲۵۔ اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا، (انہوں نے اپنی قوم سے کہا) میں تمہیں صریحاً تنبیہ کرنے والا ہوں۔

اَنۡ لَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ؕ اِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ عَذَابَ یَوۡمٍ اَلِیۡمٍ﴿۲۶﴾

۲۶۔ کہ تم غیر اللہ کی عبادت نہ کرو، مجھے تمہارے بارے میں ایک دردناک دن کے عذاب کا ڈر ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا: تاریخ انبیاء میں سب سے پہلا داعی توحید، ثنیت و بت پرستی کے خلاف سب سے پہلا جہاد اور تاریخ ادیان میں سب سے پہلے مجاہد حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر ہے۔ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا: تم جن مہلک خطرات میں گھرے ہوئے ہو اور جس انجام سے تمہیں دوچار ہونا ہو گا، اس سے بچنے اور تنبیہ کرنے آیا ہوں

۲۔ اَنۡ لَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ: اور یہ سمجھانے آیا ہوں کہ صرف اللہ کی عبادت کرو، بت پرستی کو چھوڑ دو۔

۳۔ اِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ: حضرت نوح علیہ السلام ایک ہادی و رہبر کے عنوان سے اپنی قوم پر مہربان ہیں اور ان کے درد کو اپنا درد محسوس کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں : اِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ مجھے تمہارے بارے میں خوف لاحق ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کو ان کے بارے میں خوف لاحق ہے اور خود ان کو اپنے بارے میں خوف لاحق نہیں ہے۔

۴۔ یَوۡمٍ اَلِیۡمٍ: ایک درد ناک دن کا خوف۔ اس سے مراد طوفان کے ذریعے ان کی تباہی کا دن یا قیامت کا دن ہو سکتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ دعوت نوح علیہ السلام کا بنیادی نقطہ توحید در عبادت ہے۔


آیات 25 - 26