اِنَّا لَمَّا طَغَا الۡمَآءُ حَمَلۡنٰکُمۡ فِی الۡجَارِیَۃِ ﴿ۙ۱۱﴾

۱۱۔ جب پانی میں طغیانی آئی تو ہم نے تمہیں کشتی میں سوار کیا۔

11۔ طوفان نوح کا ذکر ہے، جس میں سب غرق ہو گئے، صرف اللہ کے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اتباع کرنے والے بچ گئے۔

لِنَجۡعَلَہَا لَکُمۡ تَذۡکِرَۃً وَّ تَعِیَہَاۤ اُذُنٌ وَّاعِیَۃٌ﴿۱۲﴾

۱۲۔ تاکہ ہم اسے تمہارے لیے یادگار بنا دیں اور سمجھدار کان ہی اسے محفوظ کر لیتا ہے۔

12۔ متعدد طرق سے فریقین کے مصادر میں یہ روایت موجود ہے: وَّ تَعِیَہَاۤ اُذُنٌ وَّاعِیَۃٌ سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ ملاحظہ ہو تفسیر طبری۔ اسباب النزول واحدی۔ تفسیر کبیر فخر رازی۔ تفسیر قرطبی۔ کنز العمال۔ البحر المحیط۔ تفسیر ابن کثیر۔ روح المعانی وغیرہ۔

فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ نَفۡخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ ﴿ۙ۱۳﴾

۱۳۔ پس جب صور میں ایک دفعہ پھونک ماری جائے گی،

وَّ حُمِلَتِ الۡاَرۡضُ وَ الۡجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَّاحِدَۃً ﴿ۙ۱۴﴾

۱۴۔ اور زمین اور پہاڑ اٹھا لیے جائیں گے تو وہ ایک ہی چوٹ میں ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے،

فَیَوۡمَئِذٍ وَّقَعَتِ الۡوَاقِعَۃُ ﴿ۙ۱۵﴾

۱۵۔ تو اس روز وقوع پذیر ہونے والا واقعہ پیش آ جائے گا ۔

وَ انۡشَقَّتِ السَّمَآءُ فَہِیَ یَوۡمَئِذٍ وَّاہِیَۃٌ ﴿ۙ۱۶﴾

۱۶۔ اور آسمان پھٹ جائے گا اور وہ اس روز ڈھیلا پڑ جائے گا،

وَّ الۡمَلَکُ عَلٰۤی اَرۡجَآئِہَا ؕ وَ یَحۡمِلُ عَرۡشَ رَبِّکَ فَوۡقَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ ثَمٰنِیَۃٌ ﴿ؕ۱۷﴾

۱۷۔ اور فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے اور اس دن آٹھ فرشتے آپ کے رب کا عرش اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے۔

17۔ عرش الٰہی سے مراد علم و اقتدار لیا جائے تو اس صورت میں اس (عرش) کے اٹھانے والوں سے مراد وارثین علم الٰہی ہو سکتے ہیں، جن کی تعداد آٹھ ہو گی یا آٹھ صفیں ہوں گی۔ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ عرش تدبیر کائنات سے عبارت ہے۔ یعنی کائنات کی تخلیق کے بعد تدبیر کا مرحلہ آتا ہے۔ اس مرحلے کے لیے عرش کی تعبیر اختیار کی ہے۔ فَالۡمُدَبِّرٰتِ اَمۡرًا ۔ (نازعات:5) میں ذکر ہو گا کہ کچھ مقتدر فرشتے اللہ تعالیٰ کے تدبیری امور کے کارندے ہیں۔ یہی فرشتے حاملان تدبیران الٰہی ہوں تو بعید نہیں ہے۔

یَوۡمَئِذٍ تُعۡرَضُوۡنَ لَا تَخۡفٰی مِنۡکُمۡ خَافِیَۃٌ﴿۱۸﴾

۱۸۔ اس دن تم سب پیش کیے جاؤ گے اور تمہاری کوئی بات پوشیدہ نہ رہے گی۔

18۔ اللہ کی بارگاہ میں حساب کے لیے ہر ایک کو پیش ہونا ہو گا۔ اس مرحلے میں تمام اعمال سامنے لائے جائیں گے۔ اسے نامہ اعمال سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس کے بارے میں کہا جائے گا: مَالِ ہٰذَا الۡکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیۡرَۃً وَّ لَا کَبِیۡرَۃً اِلَّاۤ اَحۡصٰہَا ۔ (کہف:49) یہ کیسی کتاب ہے جس نے چھوٹا بڑا شمار کیے بغیر نہیں چھوڑا۔

فَاَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖ ۙ فَیَقُوۡلُ ہَآؤُمُ اقۡرَءُوۡا کِتٰبِیَہۡ ﴿ۚ۱۹﴾

۱۹۔ پس جس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ (دوسروں سے)کہے گا: لو میرا نامہ عمل پڑھو۔

19۔ جن کا نامہ اعمال ان کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ نجات حاصل کرنے والے ہوں گے۔ کیونکہ وہ دنیا میں اس یوم حساب پر یقین رکھتے تھے اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے تھے۔

یہ اصحاب یمین میں سے ہو گا، جس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ اسے اپنے نامۂ اعمال پر بھرپور اعتماد ہو گا۔ لوگوں کو دعوت دے گا، آؤ! میرے نامہ اعمال کا مطالعہ کرو۔ اس میں کوئی ایسا راز نہ ہو گا، جس کے افشا ہونے کا خطرہ ہو۔ یَوۡمَ تُبۡلَی السَّرَآئِرُ (طارق: 9)۔ وہ رازوں کے افشا ہونے کا دن ہو گا۔

اِنِّیۡ ظَنَنۡتُ اَنِّیۡ مُلٰقٍ حِسَابِیَہۡ ﴿ۚ۲۰﴾

۲۰۔ مجھے تو یقین تھا کہ مجھے اپنے حساب کا سامنا کرنا ہو گا ۔

20۔ یوم الحساب پر میرا جو پختہ عقیدہ تھا، اس کی بنا پر میں نے آج کے دن اللہ کے روبرو حساب دینے کے لیے اپنے آپ کو مستعد رکھا تھا۔