آیت 17
 

وَّ الۡمَلَکُ عَلٰۤی اَرۡجَآئِہَا ؕ وَ یَحۡمِلُ عَرۡشَ رَبِّکَ فَوۡقَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ ثَمٰنِیَۃٌ ﴿ؕ۱۷﴾

۱۷۔ اور فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے اور اس دن آٹھ فرشتے آپ کے رب کا عرش اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَّ الۡمَلَکُ عَلٰۤی اَرۡجَآئِہَا: جب آسمانوں کو لپیٹ لیا جائے گا اور موجودہ کائنات کا خاتمہ ہو گا تو آسمانوں کے باشندے کہاں ہوں گے؟ چونکہ حدیث میں ہے:

لَیْسَ فِی اَطْبَاقِ السَّمَائِ مَوْضِعُ اِھَابٍ اِلَّا وَ عَلَیْہِ مَلَکٌ سِاجِدٌ اَوْ سِاعٍ حَافِدٌ۔۔۔۔ (نہج البلاغۃ خطبہ اشباح ۹۱)

سطح آسمان پر کھال کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں کہ جہاں کوئی سجدہ کرنے والا فرشتہ یا تیزی سے تگ و دو کرنے والا ملک نہ ہو۔

آیت میں اس کی وضاحت فرمائی کہ فرشتے اطراف میں ہوں گے۔ یعنی آسمان جب نہیں ہو گا تو فرشتے اطراف میں ہوں گے۔

۲۔ وَ یَحۡمِلُ عَرۡشَ رَبِّکَ: جب قیامت برپا ہو گی تو اللہ تعالیٰ کا عرش اٹھانے والے آٹھ ہوں گے۔ ظاہر یہ ہے کہ آٹھ فرشتے ہوں گے۔

عرش کے بارے میں ہم نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ عرش، اللہ تعالیٰ کا مقام تدبیر ہے۔ اس صورت میں حاملان عرش سے مراد وہ فرشتے ہو سکتے ہیں جو تدبیر کائنات میں اللہ کے کارندے ہیں:

فَالۡمُدَبِّرٰتِ اَمۡرًا ﴿۵﴾ (۷۹ نازعات: ۵)

پھر امر کی تدبیر کرنے والے ہیں۔

اور قیامت کے دن حاملان عرش میں اضافہ ہو گا تو کیا تدبیری نظام میں اضافہ ہو گا؟ یہ بات عالم غیب سے مربوط ہے۔ انسان کو رائے زنی نہیں کرنی چاہیے اور اگر عرش الٰہی سے مراد علم و اقتدار لیا جائے تو اس صورت میں عرش اٹھانے والوں سے مراد وارثین علم الٰہی ہو سکتے ہیں جن کی تعداد آٹھ ہو گی یا آٹھ صفیں ہوں گی۔ والعلم عند اللّٰہ ۔

تفسیر برھان میں ہے:

حملۃ العرش ثمانیۃ اربعۃ من الاولین و اربعۃ من الآخرین فاما الاربعۃ من الاولین فنوح و ابراہیم و موسی و عیسی و اما الاربعۃ من الآخرین محمد و علی و الحسن و الحسین علیہم السلام۔

حاملان عرش آٹھ ہیں۔ چار اولین میں سے اور چار آخرین میں سے ہوں گے۔ اولین میں سے نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ ہیں۔ آخرین میں سے محمد، علی، حسن، حسین علیہم السلام ہیں۔


آیت 17