آیت 12
 

لِنَجۡعَلَہَا لَکُمۡ تَذۡکِرَۃً وَّ تَعِیَہَاۤ اُذُنٌ وَّاعِیَۃٌ﴿۱۲﴾

۱۲۔ تاکہ ہم اسے تمہارے لیے یادگار بنا دیں اور سمجھدار کان ہی اسے محفوظ کر لیتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ تاکہ نوح کی کشتی کو تمہارے لیے عبرت اور نصیحت کا ذریعہ قرار دیا جائے۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ چونکہ کوہ جودی پر اس کشتی کے آثار آج تک باقی ہیں اس لیے فرمایا ہے کہ اس کشتی کو یادگار بنایا۔

۲۔ وَّ تَعِیَہَاۤ: تعی حفظ کر لیتا ہے۔ الوعی حفظ کر لینے کو کہتے ہیں۔ اسی سے برتن کو وعاء کہتے ہیں کہ اس میں چیزیں حفظ ہوتی ہیں۔

۳۔ اُذُنٌ وَّاعِیَۃٌ: نصیحت سن کر اسے حفظ کرنے والا کان ہی ان تذکروں کو حفظ کر لیتا ہے۔

شیعہ سنی دونوں کے مصادر میں یہ روایت موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

انی دعوت اللّٰہ تعالیٰ ان یجعلھا اذنک یا علی۔ قال علی فما سمعت شیئاً نسیتہ وما کان لی ان انسی۔ ( روح المعانی ذیل آیہ)

میں نے اللہ سے دعا کی ہے اے علی! یہ کان آپ کا ہو۔ علی علیہ السلام فرماتے ہیں ایسا نہیں ہوا کہ کوئی بات میں نے سن لی ہو پھر بھول گئی ہو۔ بھولنا میرے لیے ناممکن ہے۔

اس مضمون کی روایات متعدد اصحاب سے وارد ہیں۔ یہاں تک کہ محمد بن العباس نے اس حدیث کو اپنی کتاب ما نزل من القران فی علی میں تیس طرق سے بیان کیا ہے۔ ان میں سے چند ایک طرق کے لیے ملاحظہ ہو: تفسیر شواہد التنزیل متن اور حاشیہ۔ ان میں ابن عباس، انس، جابر، بریدۃ الاسلمی، ابو رافع، ابن ابی الدنیا، زر بن جیش اور مکحول شامل ہیں۔

نیز ملاحظہ ہو تفسیر طبری، تفسیر کبیر رازی، اسباب النزول واحدی، تفسیر قرطبی، تفسیر ابن کثیر، کنز العمال، تفسیر البحر المحیط وغیرہ۔ شیعہ مصادر کے لیے ملاحظہ ہو: تفسیر البرھان، تفسیر فرات و غیرھا ۔


آیت 12