آیات 19 - 20
 

فَاَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖ ۙ فَیَقُوۡلُ ہَآؤُمُ اقۡرَءُوۡا کِتٰبِیَہۡ ﴿ۚ۱۹﴾

۱۹۔ پس جس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ (دوسروں سے)کہے گا: لو میرا نامہ عمل پڑھو۔

اِنِّیۡ ظَنَنۡتُ اَنِّیۡ مُلٰقٍ حِسَابِیَہۡ ﴿ۚ۲۰﴾

۲۰۔ مجھے تو یقین تھا کہ مجھے اپنے حساب کا سامنا کرنا ہو گا ۔

تشریح کلمات

ہَآؤُمُ:

کے معنی ’’لے لو‘‘ کے ہیں۔ یعنی خذوا و اقراء وا کتابی۔

تفسیر آیات

۱۔ فَاَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ: جس کا نامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ نجات حاصل کرنے والا ہو گا۔ یہ اصحاب یمین میں سے ہو گا۔ اسے اپنے نامۂ اعمال پر پورا اعتماد اور فخر ہو گا۔

۲۔ فَیَقُوۡلُ ہَآؤُمُ اقۡرَءُوۡا کِتٰبِیَہۡ: دوسروں کو دعوت دے گا، آؤ میرا نامہ عمل پڑھو۔ اس میں کوئی ایسا راز نہیں ہے جس کے فاش ہونے پر مجھے شرمندہ ہونا پڑے۔

اگرچہ معصوم نہ ہو گا لیکن اس کے سارے گناہ معاف ہو چکے ہوں گے اور اللہ نے اس کے عیوب چھپا لیے ہوں گے۔ حدیث میں ہے:

اذا کان یوم القیامۃ یدعی کل بامامہ الذی مات فی عصرہ، فان اثبتہ اعطی کتابہ بیمینہ لقولہ: یَوۡمَ نَدۡعُوۡا کُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِہِمۡ ۚ فَمَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖ فَاُولٰٓئِکَ یَقۡرَءُوۡنَ کِتٰبَہُمۡ۔۔۔۔ (تفسیر عیاشی)

جب قیامت کا دن ہو گا تو سب کو اپنے اس امام کے ساتھ پکارا جائے گا جس کے زمانے میں یہ فوت ہوا ہے اگر اس امام کو اس نے اپنا رکھا تھا تو اس کا صحیفہ عمل اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:قیامت کے دن ہم ہر گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے پھر جن کا نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیاجائے گا پس و ہ اپنا نامہ اعمال پڑھیں گے۔

۳۔ اِنِّیۡ ظَنَنۡتُ: مجھے یقن تھا کہ میں نے اپنا حساب دینا ہے۔ یہاں ظن، یقین کے معنوں میں ہے۔ دنیامیں مومن کے آخرت کے حساب پر یقین نے کام کیا اور مومن نے دنیا میں اپنا محاسبہ کیا جس کی وجہ سے آج یہ سرخرو ہے۔ بعض لوگ آخرت پر تو ایمان رکھتے ہیں، حساب پر نہیں رکھتے۔ وہ کسی غلط فہمی یا خوش فہمی کا شکار رہتے ہیں۔ایسے لوگ دنیا میں اپنا محاسبہ نہیں کرتے۔ یہ لوگ قیامت کے دن رسوا ہوں گے۔


آیات 19 - 20