وَّ الۡمَلَکُ عَلٰۤی اَرۡجَآئِہَا ؕ وَ یَحۡمِلُ عَرۡشَ رَبِّکَ فَوۡقَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ ثَمٰنِیَۃٌ ﴿ؕ۱۷﴾

۱۷۔ اور فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے اور اس دن آٹھ فرشتے آپ کے رب کا عرش اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے۔

17۔ عرش الٰہی سے مراد علم و اقتدار لیا جائے تو اس صورت میں اس (عرش) کے اٹھانے والوں سے مراد وارثین علم الٰہی ہو سکتے ہیں، جن کی تعداد آٹھ ہو گی یا آٹھ صفیں ہوں گی۔ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ عرش تدبیر کائنات سے عبارت ہے۔ یعنی کائنات کی تخلیق کے بعد تدبیر کا مرحلہ آتا ہے۔ اس مرحلے کے لیے عرش کی تعبیر اختیار کی ہے۔ فَالۡمُدَبِّرٰتِ اَمۡرًا ۔ (نازعات:5) میں ذکر ہو گا کہ کچھ مقتدر فرشتے اللہ تعالیٰ کے تدبیری امور کے کارندے ہیں۔ یہی فرشتے حاملان تدبیران الٰہی ہوں تو بعید نہیں ہے۔