بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

اِذَا جَآءَکَ الۡمُنٰفِقُوۡنَ قَالُوۡا نَشۡہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُ اللّٰہِ ۘ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَشۡہَدُ اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَکٰذِبُوۡنَ ۚ﴿۱﴾

۱۔ منافقین جب آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں اور اللہ کو بھی علم ہے کہ آپ یقینا اس کے رسول ہیں اور اللہ گواہی دیتا ہے یہ منافقین یقینا جھوٹے ہیں۔

1۔ عصر رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں مدینہ میں منافقین کی ایک خاص تعداد موجود تھی۔ جنگ احد میں ان کی تعداد تین سو تک سامنے آئی۔ یہ لوگ اگرچہ زبان سے رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کی گواہی دیتے تھے۔ اس آیت میں فرمایا: وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ یعنی یہ گواہی کے اعتبار سے تو سچ ہے، لیکن گواہ کے اعتبار سے جھوٹے ہیں کہ وہ اس گواہی کے مضمون کے قائل نہیں ہیں۔

اِتَّخَذُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ جُنَّۃً فَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اِنَّہُمۡ سَآءَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۲﴾

۲۔ انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے، پھر وہ (دوسروں کو بھی) اللہ کی راہ سے روکتے ہیں، جو کچھ یہ کرتے ہیں یقینا برا ہے۔

2۔ کفر کا اظہار کرتے تو مسلمان ان سے لڑتے، یہ قتل ہو جاتے۔ زبان سے اسلام کے اظہار کو ان لوگوں نے صرف ایک ڈھال کے طور پر استعمال کیا ہے۔

ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ فَہُمۡ لَا یَفۡقَہُوۡنَ﴿۳﴾

۳۔ یہ اس لیے ہے کہ یہ ایمان لا کر پھر کافر ہو گئے، پس ان کے دلوں پر مہر لگ گئی لہٰذا اب یہ سمجھتے نہیں ہیں۔

وَ اِذَا رَاَیۡتَہُمۡ تُعۡجِبُکَ اَجۡسَامُہُمۡ ؕ وَ اِنۡ یَّقُوۡلُوۡا تَسۡمَعۡ لِقَوۡلِہِمۡ ؕ کَاَنَّہُمۡ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ؕ یَحۡسَبُوۡنَ کُلَّ صَیۡحَۃٍ عَلَیۡہِمۡ ؕ ہُمُ الۡعَدُوُّ فَاحۡذَرۡہُمۡ ؕ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ ۫ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ ﴿۴﴾

۴۔ اور جب آپ انہیں دیکھ لیں تو ان کے جسم آپ کو بھلے معلوم ہوں گے اور جب وہ بولیں تو آپ ان کی باتیں توجہ سے سنتے ہیں (مگر وہ ایسے بے روح ہیں) گویا وہ دیوار سے لگائی گئی لکڑیاں ہیں، ہر آواز کو اپنے خلاف تصور کرتے ہیں، یہی لوگ (بڑے) دشمن ہیں لہٰذا آپ ان سے محتاط رہیں، اللہ انہیں ہلاک کرے یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں۔

4۔ زمخشری الکشاف میں لکھتے ہیں: عبد اللہ بن ابی ایک جسیم، بلند قد و قامت کا آدمی تھا اور ساتھ بولنے میں بھی بہت تیز تھا۔ قرآن نے ان منافقوں کو بے جان، بے شعور ایسی لکڑی کے ساتھ تشبیہ دی جو کسی دیوار کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ یعنی مجلس میں ایک بے جان بے شعور لکڑی کی طرح دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھتے ہیں۔

۔ اس آیت سے یہ تو واضح ہے کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا استغفار عام لوگوں کے استغفار کی طرح نہیں ہے۔ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا کو اہمیت نہ دینا نفاق کی علامت ہے۔

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ تَعَالَوۡا یَسۡتَغۡفِرۡ لَکُمۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ لَوَّوۡا رُءُوۡسَہُمۡ وَ رَاَیۡتَہُمۡ یَصُدُّوۡنَ وَ ہُمۡ مُّسۡتَکۡبِرُوۡنَ﴿۵﴾

۵۔ اور جب ان سے کہا جائے: آؤ کہ اللہ کا رسول تمہارے لیے مغفرت مانگے تو وہ سر جھٹک دیتے ہیں اور آپ دیکھیں گے کہ وہ تکبر کے سبب آنے سے رک جاتے ہیں۔

سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ اَسۡتَغۡفَرۡتَ لَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ ؕ لَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ﴿۶﴾

۶۔ ان کے لیے یکساں ہے خواہ آپ ان کے لیے مغفرت طلب کریں یا نہ کریں، اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا، اللہ فاسقین کو یقینا ہدایت نہیں کرتا۔

ہُمُ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ لَا تُنۡفِقُوۡا عَلٰی مَنۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنۡفَضُّوۡا ؕ وَ لِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لٰکِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَا یَفۡقَہُوۡنَ﴿۷﴾

۷۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں: جو لوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر خرچ نہ کرنا یہاں تک کہ یہ بکھر جائیں حالانکہ آسمانوں اور زمین کے خزانوں کا مالک اللہ ہی ہے لیکن منافقین سمجھتے نہیں ہیں۔

یَقُوۡلُوۡنَ لَئِنۡ رَّجَعۡنَاۤ اِلَی الۡمَدِیۡنَۃِ لَیُخۡرِجَنَّ الۡاَعَزُّ مِنۡہَا الۡاَذَلَّ ؕ وَ لِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ وَ لِرَسُوۡلِہٖ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ لٰکِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ٪﴿۸﴾

۸۔ کہتے ہیں: اگر ہم مدینہ لوٹ کر جائیں تو عزت والا ذلت والے کو وہاں سے ضرور نکال باہر کرے گا، جب کہ عزت تو اللہ، اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہے لیکن منافقین نہیں جانتے۔

7۔8 غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر دشمن کو شکست دینے کے بعد ایک مہاجر اور ایک انصاری میں پانی کے مسئلہ پر تکرار ہوئی اور ہاتھا پائی تک نوبت پہنچ گئی۔ اس پر انصار اور مہاجر نے اپنی اپنی قوم کو مدد کے لیے پکارا۔ منافقین کے سربراہ عبد اللہ بن ابی نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اوس و خزرج کو پکارا۔ ادھر کچھ مہاجرین بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ چنانچہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مداخلت پر معاملہ ختم ہوا۔ لیکن اس واقعے کے بعد دیگر منافقین عبد اللہ بن ابی کے پاس جمع ہو گئے تو ابن ابی نے ان سے کہا: خدا کی قسم مدینہ پہنچنے پر ہم میں سے عزت والا ذلیل کو نکال دے گا۔ تم لوگ ان پر کوئی مال خرچ نہ کرو تو یہ اپنی بالادستی چھوڑ کر یہاں سے نکل جائیں گے۔ حضرت زید بن ارقم اس مجلس میں موجود تھے، جنہوں نے سارا واقعہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سنا دیا۔ اس سلسلے میں زید بن ارقم کی تصدیق میں یہ آیات نازل ہوئیں۔

وَ لِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ وَ لِرَسُوۡلِہٖ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ : عزت اللہ، اس کے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مومنین کے لیے ہے۔ حدیث میں آیا ہے: اللہ تعالیٰ نے مومن کے ہاتھ اس کے تمام امور سپرد کیے ہیں و لم یفوّض الیہ ان یذلّ نفسہ ۔ مگر اپنے آپ کو ذلیل کرنے کا اختیار نہیں دیا ہے۔(الکافی 5: 63)

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُلۡہِکُمۡ اَمۡوَالُکُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ﴿۹﴾

۹۔ اے ایمان والو! تمہارے اموال اور تمہاری اولاد ذکر خدا سے تمہیں غافل نہ کر دیں اور جو ایسا کرے گا تو وہ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔

9۔ مال و اولاد اگر تقرب الی اللہ کے لیے ذریعہ بن جائیں تو مال کو قرآن خیر سے تعبیر کرتا ہے اور اولاد باقیات الصالحات بن جاتی ہے۔ اگر یہ دونوں انسان کو اللہ سے دور اور ذکر خدا سے غافل بنا دیں اور انسان اور اس کے رب کے درمیان حائل ہو جائیں تو اس صورت میں مال و اولاد خسارے کا باعث بنتے ہیں۔

وَ اَنۡفِقُوۡا مِنۡ مَّا رَزَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ فَیَقُوۡلَ رَبِّ لَوۡ لَاۤ اَخَّرۡتَنِیۡۤ اِلٰۤی اَجَلٍ قَرِیۡبٍ ۙ فَاَصَّدَّقَ وَ اَکُنۡ مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اور جو رزق ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے پھر وہ کہنے لگے: اے میرے رب! تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت کیوں نہ دی تاکہ میں صدقہ دیتا اور میں (بھی) صالحین میں سے ہو جاتا۔

10۔ قیامت کے دن شہود عینی کے راستے سے علم ہو جائے گا کہ راہ خدا میں مال خرچ کرنے کا کیا رتبہ ہے۔ اس حقیقت کے انکشاف کے بعد وہ زبان سے اس حسرت کا اظہار کرے گا کہ کاش ایک موقع پھر مل جاتا تو جی بھر کے راہ خدا میں خرچ کرتا۔

وَ لَنۡ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفۡسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُہَا ؕ وَ اللّٰہُ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ﴿٪۱۱﴾

۱۱۔ اور جب کسی کا مقررہ وقت آ جاتا ہے تو پھر اللہ اسے ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم لوگ کرتے ہو اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔