آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ المنافقون

اس سورۃ کا نام آیت اِذَا جَآءَکَ الۡمُنٰفِقُوۡنَ سے ماخوذ ہے۔ مدینہ میں نفاق یہاں سے شروع ہوا کہ مدینے میں دو قبیلوں اوس اور خَزْرج میں آپس کی خانہ جنگی سے تنگ آکر ایک شخص کی قیادت میں متحد ہونے پر اتفاق ہوا اور قیادت کے لیے قبیلہ خزرج کے سردار عبد اللّٰہ بن اُبی بن سلو ل کو بادشاہ بنانے پر متفق ہوگئے یہاں تک اس کے لیے تاج بنا لیا گیا تھا۔ اسی اثنا میں مدینہ میں اسلام کا اثر نفوذ شروع ہوا اور دونوں قبیلوں کی بااثر شخصیات نے اسلام قبول کیا جس کی وجہ سے عبد اللہ بن اُبی بادشاہ نہ بن سکا۔ بعد میں اگرچہ اس نے بھی زبان پر کلمہ اسلام جاری کیا مگر اس کے دل میں اسلام کے خلاف نفرت موجزن تھی۔

چنانچہ مختلف جنگوں میں اس نے اپنی منافقانہ سازش کے ذریعے لشکر اسلام کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ جنگ احد میں اپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ جنگ سے الگ ہوگیا۔ جب مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ جنگ کی صورت بن گئی تو اس نے یہودیوں کی حمایت کی۔ غزوہ بن مصطلق کے موقع پر اس کی منافقت کھل کر سامنے آ گئی کہ اس نے اپنے ساتھیوں سے ایک مجلس میں کہا: تم اصحاب محمدؐ سے ہاتھ روک لو۔ مدینہ پہنچ کر ہم میں سے جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو نکال دے گا۔ اس بات کو زید بن ارقم سن رہا تھے جو کم عمر تھے۔ زید نے یہ باتیں رسول اللہؐ کو بتائیں۔ عبد اللّٰہ بن اُبی نے انکار کیا، مگر زید کی تصدیق میں یہ آیات نازل ہوئیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِذَا جَآءَکَ الۡمُنٰفِقُوۡنَ قَالُوۡا نَشۡہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُ اللّٰہِ ۘ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَشۡہَدُ اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَکٰذِبُوۡنَ ۚ﴿۱﴾

۱۔ منافقین جب آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں اور اللہ کو بھی علم ہے کہ آپ یقینا اس کے رسول ہیں اور اللہ گواہی دیتا ہے یہ منافقین یقینا جھوٹے ہیں۔

تفسیر آیات

عصر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں مدینہ میں منافقین کی ایک خاص تعداد موجود تھی:

وَ مِنۡ اَہۡلِ الۡمَدِیۡنَۃِ ۟ۛؔ مَرَدُوۡا عَلَی النِّفَاقِ۔۔۔ (۹ توبۃ:۱۰۱)

اور خود اہل مدینہ میں بھی ایسے منافقین ہیں جو منافقت پر اڑے ہوئے ہیں۔

اہل مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے منافقت میں مہارت حاصل کی ہے اور اس پر اڑے ہوئے ہیں۔ جنگ احد میں ان کی تعداد تین سو سامنے آئی اور جو لوگ سامنے نہ آئے ان کی تعداد معلوم نہیں ہے۔

۱۔ اِذَا جَآءَکَ الۡمُنٰفِقُوۡنَ: یہ منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہتے ہیں: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں۔ اس آیت میں فرمایا: وہ جھوٹ بولتے ہیں یعنی ان کا یہ کہنا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، یہ گواہی ان کے اپنے عقیدے کے مطابق نہیں ہے۔ وہ اپنے عقیدے کے خلاف بات کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ واقع کے مطابق سچ ہے لیکن یہ اپنے عقیدے کے مطابق جھوٹ بول رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ان منافقین کی طرف سے آپ کی رسالت کی گواہی، گواہی کے اعتبار سے تو سچی ہے لیکن گواہ کے اعتبار سے جھوٹی ہے۔ گواہی سچ ہے اور گواہ جھوٹا ہے۔


آیت 1