منافقین کے عزائم


ہُمُ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ لَا تُنۡفِقُوۡا عَلٰی مَنۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنۡفَضُّوۡا ؕ وَ لِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لٰکِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَا یَفۡقَہُوۡنَ﴿۷﴾

۷۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں: جو لوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر خرچ نہ کرنا یہاں تک کہ یہ بکھر جائیں حالانکہ آسمانوں اور زمین کے خزانوں کا مالک اللہ ہی ہے لیکن منافقین سمجھتے نہیں ہیں۔

یَقُوۡلُوۡنَ لَئِنۡ رَّجَعۡنَاۤ اِلَی الۡمَدِیۡنَۃِ لَیُخۡرِجَنَّ الۡاَعَزُّ مِنۡہَا الۡاَذَلَّ ؕ وَ لِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ وَ لِرَسُوۡلِہٖ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ لٰکِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ٪﴿۸﴾

۸۔ کہتے ہیں: اگر ہم مدینہ لوٹ کر جائیں تو عزت والا ذلت والے کو وہاں سے ضرور نکال باہر کرے گا، جب کہ عزت تو اللہ، اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہے لیکن منافقین نہیں جانتے۔

7۔8 غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر دشمن کو شکست دینے کے بعد ایک مہاجر اور ایک انصاری میں پانی کے مسئلہ پر تکرار ہوئی اور ہاتھا پائی تک نوبت پہنچ گئی۔ اس پر انصار اور مہاجر نے اپنی اپنی قوم کو مدد کے لیے پکارا۔ منافقین کے سربراہ عبد اللہ بن ابی نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اوس و خزرج کو پکارا۔ ادھر کچھ مہاجرین بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی مداخلت پر معاملہ ختم ہوا۔ لیکن اس واقعے کے بعد دیگر منافقین عبد اللہ بن ابی کے پاس جمع ہو گئے تو ابن ابی نے ان سے کہا: خدا کی قسم مدینہ پہنچنے پر ہم میں سے عزت والا ذلیل کو نکال دے گا۔ تم لوگ ان پر کوئی مال خرچ نہ کرو تو یہ اپنی بالادستی چھوڑ کر یہاں سے نکل جائیں گے۔ حضرت زید بن ارقم اس مجلس میں موجود تھے، جنہوں نے سارا واقعہ رسول اللہ ﷺ کو سنا دیا۔ اس سلسلے میں زید بن ارقم کی تصدیق میں یہ آیات نازل ہوئیں۔

وَ لِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ وَ لِرَسُوۡلِہٖ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ : عزت اللہ، اس کے رسول ﷺ اور مومنین کے لیے ہے۔ حدیث میں آیا ہے: اللہ تعالیٰ نے مومن کے ہاتھ اس کے تمام امور سپرد کیے ہیں و لم یفوّض الیہ ان یذلّ نفسہ ۔ مگر اپنے آپ کو ذلیل کرنے کا اختیار نہیں دیا ہے۔(الکافی 5: 63)