منافق کی مثال


وَ اِذَا رَاَیۡتَہُمۡ تُعۡجِبُکَ اَجۡسَامُہُمۡ ؕ وَ اِنۡ یَّقُوۡلُوۡا تَسۡمَعۡ لِقَوۡلِہِمۡ ؕ کَاَنَّہُمۡ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ؕ یَحۡسَبُوۡنَ کُلَّ صَیۡحَۃٍ عَلَیۡہِمۡ ؕ ہُمُ الۡعَدُوُّ فَاحۡذَرۡہُمۡ ؕ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ ۫ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ ﴿۴﴾

۴۔ اور جب آپ انہیں دیکھ لیں تو ان کے جسم آپ کو بھلے معلوم ہوں گے اور جب وہ بولیں تو آپ ان کی باتیں توجہ سے سنتے ہیں (مگر وہ ایسے بے روح ہیں) گویا وہ دیوار سے لگائی گئی لکڑیاں ہیں، ہر آواز کو اپنے خلاف تصور کرتے ہیں، یہی لوگ (بڑے) دشمن ہیں لہٰذا آپ ان سے محتاط رہیں، اللہ انہیں ہلاک کرے یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں۔

4۔ زمخشری الکشاف میں لکھتے ہیں: عبد اللہ بن ابی ایک جسیم، بلند قد و قامت کا آدمی تھا اور ساتھ بولنے میں بھی بہت تیز تھا۔ قرآن نے ان منافقوں کو بے جان، بے شعور ایسی لکڑی کے ساتھ تشبیہ دی جو کسی دیوار کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ یعنی مجلس میں ایک بے جان بے شعور لکڑی کی طرح دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھتے ہیں۔

۔ اس آیت سے یہ تو واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا استغفار عام لوگوں کے استغفار کی طرح نہیں ہے۔ رسول ﷺ کی دعا کو اہمیت نہ دینا نفاق کی علامت ہے۔