آیت 4
 

وَ اِذَا رَاَیۡتَہُمۡ تُعۡجِبُکَ اَجۡسَامُہُمۡ ؕ وَ اِنۡ یَّقُوۡلُوۡا تَسۡمَعۡ لِقَوۡلِہِمۡ ؕ کَاَنَّہُمۡ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ؕ یَحۡسَبُوۡنَ کُلَّ صَیۡحَۃٍ عَلَیۡہِمۡ ؕ ہُمُ الۡعَدُوُّ فَاحۡذَرۡہُمۡ ؕ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ ۫ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ ﴿۴﴾

۴۔ اور جب آپ انہیں دیکھ لیں تو ان کے جسم آپ کو بھلے معلوم ہوں گے اور جب وہ بولیں تو آپ ان کی باتیں توجہ سے سنتے ہیں (مگر وہ ایسے بے روح ہیں) گویا وہ دیوار سے لگائی گئی لکڑیاں ہیں، ہر آواز کو اپنے خلاف تصور کرتے ہیں، یہی لوگ (بڑے) دشمن ہیں لہٰذا آپ ان سے محتاط رہیں، اللہ انہیں ہلاک کرے یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں۔

تفسیر آیات

روایات کے مطابق رئیس المنافقین عبد اللّٰہ بن ابی کی طرف اشارہ ہے۔ یہ قبیلۂ خزرج کا بزرگ تھا۔ مدینے کے دونوں قبیلوں اوس اور خزرج دونوں نے آپس میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ عبد اللّٰہ بن ابی بن سلول کو اپنا بادشاہ بنایا جائے۔ بات یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ اس کے لیے تاج بنا لیا گیا تھا۔

اسی اثنا میں مدینے میں اسلام کا سورج طلوع ہو گیا اور بہت سے بااثر لوگوں نے اسلام قبول کیا تو عبد اللّٰہ بن اُبی کی بادشاہت کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی۔ بعد میں اس نے بھی بظاہر اسلام کا کلمہ پڑھ لیا لیکن اس کے دل میں اسلام داخل نہ ہو سکا۔

۱۔ وَ اِذَا رَاَیۡتَہُمۡ تُعۡجِبُکَ اَجۡسَامُہُمۡ: کہتے ہیں ابن اُبی سلول ایک جسیم، بلند قد و قامت کا آدمی تھا اور بولنے میں تیز تھا۔ جب وہ بات کرتا تو اس کی فصاحت، خوش کلامی اور چرب زبانی کی وجہ سے لوگ اس کی باتوں کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے۔ چنانچہ بعض روایات کے مطابق یہ شخص جمعہ کے خطبے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت میں اٹھ کر باتیں کرتا تھا۔

۲۔ کَاَنَّہُمۡ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ: ان منافقین کی حالت ایسی ہے جیسے دیوار سے لگی ہوئی لکڑیاں ہوں۔ اس میں دو باتیں وجہ تشبیہ ہیں: اول یہ کہ یہ لکڑیاں بے روح بے شعور ہیں۔ کسی قسم کی تعلیم و تربیت کی اہلیت نہیں رکھتیں۔ دوم یہ کہ لکڑیاں اگر چھت وغیرہ میں لگی ہوئی ہوں تو ان سے استفادہ ہو رہا ہوتا ہے۔ دیوار کے ساتھ لگائی ہوئی لکڑی بے مصرف ہوتی ہے۔ یہ لوگ معاشرے کے لیے ایک خشک چیز کی طرح غیر مفید ہیں۔

۳۔ یَحۡسَبُوۡنَ کُلَّ صَیۡحَۃٍ عَلَیۡہِمۡ: بستی میں کبھی بھی کہیں سے شور کی آواز آتی تو یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارا راز فاش ہو گیا ہے۔ یہ آواز ہمارے خلاف اٹھ رہی ہے۔

۴۔ ہُمُ الۡعَدُوُّ: دشمن یہی لوگ ہیں۔ چونکہ ظاہری دشمن سے مقابلہ ہوتا ہے تو وہ فاصلے پر ہوتا ہے۔ اس سے بچنا آسان ہے لیکن مار آستین اندر کا دشمن زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

۵۔ فَاحۡذَرۡہُمۡ: لہٰذا ان سے اسی طرح بچ کر رہو جس طرح ایک کھلے دشمن سے بچا جاتا ہے اور جس اسلام کا یہ اظہار کرتے ہیں اس سے دھوکہ نہ کھایا کرو۔

۶۔ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ: اللہ ان سے زندگی کی نعمت چھین لے۔ یہ لعنت کی طرح ہر قسم کی رحمت حتیٰ رحمتِ حیات سے دور کرنے پر مشتمل لعنت ہے۔

۷۔ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ: اظہار تعجب ہے کہ یہ منافقین حق اور ابدی سعادت چھوڑ کر کس گمراہی اور تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔


آیت 4