آیت 6
 

سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ اَسۡتَغۡفَرۡتَ لَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ ؕ لَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ﴿۶﴾

۶۔ ان کے لیے یکساں ہے خواہ آپ ان کے لیے مغفرت طلب کریں یا نہ کریں، اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا، اللہ فاسقین کو یقینا ہدایت نہیں کرتا۔

تفسیر آیات

۱۔ اگر شخص قابل ہدایت نہیں ہے تو اس کے لیے استغفار فائدہ مند نہیں ہے چونکہ عفو اور درگزر اس صورت میں ہو سکتا ہے جب مجرم اپنا جرم ترک کرے اور راہ راست پر آ جائے۔ یہ منافقین اپنے جرم سے باز نہیں آئے ہیں تو ان کے جرم سے درگزر کیسے ہو سکتا ہے۔

۲۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ: مجرم جب اپنے جرم کی وجہ سے ہدایت کی راہ سے نکل گیا ہے اور ایسا فسق اس پر مسلط ہے کہ وہ از خود راہ راست پر آنے والا نہیں ہے لہٰذا اللہ اسے جبراً ہدایت کی طرف نہیں لائے گا۔

اس آیت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا استغفار عام لوگوں کے استغفار کی طرح نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعا کو اہمیت نہ دینا نفاق کی علامت ہے۔


آیت 6