آیات 7 - 8
 

ہُمُ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ لَا تُنۡفِقُوۡا عَلٰی مَنۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنۡفَضُّوۡا ؕ وَ لِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لٰکِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَا یَفۡقَہُوۡنَ﴿۷﴾

۷۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں: جو لوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر خرچ نہ کرنا یہاں تک کہ یہ بکھر جائیں حالانکہ آسمانوں اور زمین کے خزانوں کا مالک اللہ ہی ہے لیکن منافقین سمجھتے نہیں ہیں۔

یَقُوۡلُوۡنَ لَئِنۡ رَّجَعۡنَاۤ اِلَی الۡمَدِیۡنَۃِ لَیُخۡرِجَنَّ الۡاَعَزُّ مِنۡہَا الۡاَذَلَّ ؕ وَ لِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ وَ لِرَسُوۡلِہٖ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ لٰکِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ٪﴿۸﴾

۸۔ کہتے ہیں: اگر ہم مدینہ لوٹ کر جائیں تو عزت والا ذلت والے کو وہاں سے ضرور نکال باہر کرے گا، جب کہ عزت تو اللہ، اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہے لیکن منافقین نہیں جانتے۔

تشریح کلمات

یَنۡفَضُّوۡا:

( ن ف ض ) النفض منتشر ہونے کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

یہ باتیں بھی عبد اللّٰہ بن اُبی نے کہی تھیں اور زید بن ارقم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بتائی تھیں۔ عبداللّٰہ بن اُبی نے بعد میں انکار کیا تھا۔ لوگوں نے ابن اُبی کی تصدیق کی اور زید بن ارقم کی ملامت کی۔ بعد میں یہ آیات نازل ہوئیں جن سے زید بن ارقم کی باتوں کی تصدیق ہوئی۔ تفصیل اگلی آیت کے ذیل میں آئے گی۔

۱۔ وَ لِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ: آسمانوں اور زمین کے خزانوں کا مالک اللہ ہے۔ رازق اللہ ہے۔ ان منافقین کے پاس جو کچھ ہے وہ اللہ کا دیا ہوا ہے۔ اگر اللہ چاہے تو یہ اموال ان سے چھن سکتا ہے۔ البتہ مومنوں کو اللہ تعالیٰ آزمائش کے مراحل سے گزار رہا ہے۔

۲۔ وَ لٰکِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَا یَفۡقَہُوۡنَ: منافقین یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ رزق اللہ کی طرف سے ہے یا اسباب و علل کے ہاتھوں میں ہے۔ اسباب و علل کی فراہمی بھی اللہ کی طرف سے ہے۔ اگر اللہ چاہے تو تمام علل و اسباب نابود ہو جائیں اور انسان رزق حاصل کرنے پر قادر ہی نہ ہو۔

۳۔ یَقُوۡلُوۡنَ لَئِنۡ رَّجَعۡنَاۤ: واپس مدینہ پہنچ کر ہم ان ذلیلوں (مہاجرین) کو مدینہ سے نکال باہر کریں گے۔

غزوہ المصطلق کے موقع پر دشمن کو شکست دینے کے بعد ایک مہاجر اور ایک انصاری میں پانی کے مسئلہ پر تکرار ہوئی اور ہاتھا پائی تک نوبت پہنچ گئی۔ اس پر انصاری اور مہاجر نے اپنی اپنی قوم کو مدد کے لیے پکارا۔ منافقین کے سربراہ عبد اللہ بن ابی نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اوس و خزرج کو پکارا۔ ادھر کچھ مہاجرین بھی اٹھ کرکھڑے ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مداخلت پر معاملہ ختم ہو گیا لیکن اس واقعے کے بعد دیگر منافقین عبد اللّٰہ بن ابی کے پاس جمع ہو گئے تو ابن ابی نے ان سے کہا: خدا کی قسم مدینہ پہنچنے پر ہم میں سے عزت والا ذلیل کو نکال دے گا۔ تم لوگ ان پر کوئی مال خرچ نہ کرو۔ یہ اپنی بالا دستی چھوڑ کر یہاں سے نکل جائیں گے۔ حضرت زید بن ارقم جو ابھی کم سن تھے اس مجلس میں موجود تھے۔ انہوں نے سارا واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنا دیا۔ اس سلسلے میں زید بن ارقم کی تصدیق میں یہ آیات نازل ہوئیں۔

۴۔ وَ لِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ وَ لِرَسُوۡلِہٖ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ: عزت اور عظمت اللہ، رسول اور مومنین کی ہے۔ کافروں کے اقتصادی محاصرے سے کبھی بھی مومنوں کو زیر نہیں کیا جا سکے گا اور منافقین اپنے نفاق کے ذریعے ذلت سے بچ نہیں سکتے۔

جو عزت اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دی ہے اس عزت کو یہ منافقین تو کیا ساری دنیا کی طاقت زائل نہیں کر سکتی۔

مومن کی اپنی عزت کے بارے میں اسلام کا یہ قانون ہے کہ ہر وہ عمل جس سے مومن کی اہانت ہوتی ہے حرام ہے اور خود مومن پر بھی ہر وہ عمل جس سے اس کی اہانت ہوتی ہے حرام ہے۔

۵۔ وَ لٰکِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ: منافقین کو اس بات کا علم کہاں کہ عزت کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر تکیہ کرے گا عزت اسی کی ہے۔


آیات 7 - 8