بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

سورہ یٰسٓ

اِنَّ لِکُلِّ شَیْئٍ قَلْباً وَ قَلْبُ الْقُرْآنِ یٰسٓ ۔ ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل سورئہ یاسین ہے۔ (حدیث نبوی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم۔ مستدرک الوسائل 4: 324)

حدیث میں آیا ہے: سُورَۃُ یس تُدْعَی فِی التَّوْرَأۃِ الْمُعِمَّۃَ قِیلَ: وَ مَا الْمُعِمَّۃَ؟ قال ص تَعُمُّ صَاحِبَھَا خَیْرَ الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃِ ۔ (مستدرک الوسائل 4:322) رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ایک سورہ ہے جسے توریت میں المعّمۃ کہتے ہیں۔ پوچھا گیا: المعّمۃ کیا ہے؟ فرمایا: جس کے پاس سورہ یٓسٓ ہو گا اس کے پاس دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی ہو گی۔

دیگر حدیث میں آیا ہے: عَلِّمُوا اَوْلَادَکُمْ یس فَاِنَّھَا رَیْحَانَۃُ الْقُرْآن ۔(مستدرک الوسائل 4: 325) اپنی اولاد کو سورﮤ یٓسٓ کی تعلیم دو، یہ قرآن کا گلدستہ ہے۔

یٰسٓ ۚ﴿۱﴾

۱۔ یا، سین ۔

وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡحَکِیۡمِ ۙ﴿۲﴾

۲۔ قسم ہے قرآن حکیم کی

2۔ قرآن کے ساتھ قسم کھانے کا مطلب یہی بنتا ہے کہ قرآن رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کی دلیل ہے۔

اِنَّکَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۳﴾

۳۔کہ آپ یقینا رسولوں میں سے ہیں،

عَلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ؕ﴿۴﴾

۴۔ راہ راست پر ہیں۔

تَنۡزِیۡلَ الۡعَزِیۡزِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۵﴾

۵۔ (یہ قرآن) غالب آنے والے مہربان کا نازل کردہ ہے،

لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اُنۡذِرَ اٰبَآؤُہُمۡ فَہُمۡ غٰفِلُوۡنَ﴿۶﴾

۶۔تاکہ آپ ایک ایسی قوم کو تنبیہ کریں جس کے باپ دادا کو تنبیہ نہیں کی گئی تھی لہٰذا وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

6۔ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معاصر لوگوں کے قریبی آبا و اجداد کو تنبیہ کرنے والا کوئی قریبی عرب رسول نہیں بھیجا گیا اور چونکہ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پوری انسانیت کی طرف بھیجا گیا ہے، اس لیے اس سے مراد پانچ سو سال کا وہ وقفہ لینا مناسب ہے جس میں کوئی رسول مبعوث نہیں ہوا۔

سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ سورہ فاطر میں فرمایا: کوئی امت ایسی نہ گزری جس میں کوئی نذیر تنبیہ کرنے والا نہ آیا ہو۔ یہاں فرمایا: مَّاۤ اُنۡذِرَ اٰبَآؤُہُمۡ ان کے باپ دادا کو تنبیہ نہیں کی گئی۔ جواب یہ ہے کہ اللہ نے یہ نہیں فرمایا : ما ارسلنا الیہم نذیراً ۔ ہم نے ان کی طرف کسی تنبیہ کرنے والے کو نہیں بھیجا کہ اعتراض درست ہو جائے، بلکہ فرمایا: مَّآ اُنْذِرَ ، ان کو تنبیہ نہیں کی گئی۔ تنبیہ نہ ہونا، نبی نہ ہونے کی وجہ سے نہیں، بلکہ ان کی تعلیمات میں تحریف اور خود لوگوں کی طرف سے رکاوٹ ڈالنے کی وجہ سے تنبیہ نہیں ہوئی، ورنہ ان کی طرف حضرت ابراہیم، اسماعیل، ہود، صالح اور شعیب علیہم السلام مبعوث ہوئے۔

لَقَدۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ عَلٰۤی اَکۡثَرِہِمۡ فَہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۷﴾

۷۔بتحقیق ان میں سے اکثر پر اللہ کا فیصلہ حتمی ہو چکا ہے پس اب وہ ایمان نہیں لائیں گے۔

7۔ یعنی ان کے بارے میں اللہ کا فیصلہ اٹل ہو گیا کہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

اِنَّا جَعَلۡنَا فِیۡۤ اَعۡنَاقِہِمۡ اَغۡلٰلًا فَہِیَ اِلَی الۡاَذۡقَانِ فَہُمۡ مُّقۡمَحُوۡنَ﴿۸﴾

۸۔ ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال رکھے ہیں اور وہ ٹھوڑیوں تک (پھنسے ہوئے) ہیں اسی لیے ان کے سر اوپر کی طرف الٹے ہوئے ہیں۔

وَ جَعَلۡنَا مِنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمۡ سَدًّا وَّ مِنۡ خَلۡفِہِمۡ سَدًّا فَاَغۡشَیۡنٰہُمۡ فَہُمۡ لَا یُبۡصِرُوۡنَ﴿۹﴾

۹۔ اور ہم نے ان کے آگے دیوار کھڑی کی ہے اور ان کے پیچھے بھی دیوار کھڑی کی ہے اور ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے لہٰذا وہ کچھ دیکھ نہیں پاتے ۔

وَ سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اور ان کے لیے یکساں ہے کہ آپ انہیں تنبیہ کریں یا نہ کریں وہ (ہر حالت میں) ایمان نہیں لائیں گے۔

10۔ کچھ لوگ کہتے ہیں جب اللہ نے فرمایا کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے تو پھر ان کا ایمان لانا ناممکن ہو جائے گا، دوسری طرف ان کو ایمان لانے کا حکم ہوتا ہے۔ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ ناممکن بات کا حکم دینا معقول اور درست ہے۔ جواب یہ ہے کہ اللہ کو علم ہے کہ وہ ایمان لانے پر قادر ہوتے ہوئے ایمان نہیں لائیں گے، یعنی علم خدا کی وجہ سے وہ ایمان نہ لانے پر مجبور نہیں ہوتے۔ لہٰذا ان کے لیے ایمان لانا ناممکن نہیں ہوتا۔