آیت 9
 

وَ جَعَلۡنَا مِنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمۡ سَدًّا وَّ مِنۡ خَلۡفِہِمۡ سَدًّا فَاَغۡشَیۡنٰہُمۡ فَہُمۡ لَا یُبۡصِرُوۡنَ﴿۹﴾

۹۔ اور ہم نے ان کے آگے دیوار کھڑی کی ہے اور ان کے پیچھے بھی دیوار کھڑی کی ہے اور ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے لہٰذا وہ کچھ دیکھ نہیں پاتے ۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ جَعَلۡنَا مِنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمۡ سَدًّا: جب لوگ اپنی ہٹ دھرمی سے ایمان نہیں لاتے تو اللہ تعالیٰ ان سے ہاتھ اٹھا لیتا اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ جب ہدایت کا سرچشمہ ان سے ہاتھ اُٹھا لے تو کون ہے جو انہیں ہدایت دے:

فَمَنۡ یَّہۡدِیۡ مَنۡ اَضَلَّ اللّٰہُ۔۔۔۔ (۳۰روم: ۲۹)

پس جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟

وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ ہَادٍ﴿۳۳﴾ (۱۳رعد: ۳۳)

اور اللہ جسے گمراہ کر دے اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں۔

اس آیت میں ان لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے جنہیں اللہ نے ان کی حالت پر چھوڑ دیا ہے۔ اب وہ گمراہی کی تاریکی میں اس طرح مبتلا ہیں جس طرح کوئی شخص ایک حصار میں بند ہو۔ نہ آگے کا راستہ دکھائی دیتا ہے، نہ منزل کی طرف واپس آنے کا راستہ نظر آتا ہے۔ نہ گزشتہ اقوام کے سبق آموز واقعات سے عبرت حاصل کرتے ہیں، نہ آنے والے خطرات سے بچنے کا کوئی چارہ سوچتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ انبیاء علیہم السلام کا پیغام نہ پہنچنے کی وجہ سے لوگ غافل ہو جاتے ہیں: فَہُمۡ غٰفِلُوۡنَ۔

۲۔ اللہ کا فیصلہ اٹل ہونے کی نوبت آنے کے بعد ہدایت کے راستے بند ہو جاتے ہیں: لَقَدۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ۔۔۔۔

۳۔ جس سے اللہ ہاتھ اٹھا لے اس کے لیے سارے راستے بند ہو جاتے ہیں۔


آیت 9