اِنَّمَا تُنۡذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکۡرَ وَ خَشِیَ الرَّحۡمٰنَ بِالۡغَیۡبِ ۚ فَبَشِّرۡہُ بِمَغۡفِرَۃٍ وَّ اَجۡرٍ کَرِیۡمٍ﴿۱۱﴾

۱۱۔ آپ تو صرف اسے تنبیہ کر سکتے ہیں جو اس ذکر کی اتباع کرے اور بن دیکھے رحمن کا خوف رکھے، ایسے شخص کو مغفرت اور اجر کریم کی بشارت دے دیں۔

اِنَّا نَحۡنُ نُحۡیِ الۡمَوۡتٰی وَ نَکۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَ اٰثَارَہُمۡ ؕؑ وَ کُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ فِیۡۤ اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ﴿٪۱۲﴾

۱۲۔ ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور جو کچھ وہ آگے بھیج چکے ہیں اور جو آثار پیچھے چھوڑ جاتے ہیں سب کو ہم لکھتے ہیں اور ہر چیز کو ہم نے ایک امام مبین میں جمع کر دیا ہے۔

12۔ ”آگے بھیجا ہے“ سے مراد وہ اعمال ہیں جو انسان اپنی زندگی میں بجا لاتا ہے اور آثار سے مراد وہ صدقات جاریہ ہیں جو انسان کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتے ہیں۔ مثلاً مسجد، مدرسہ اور شفاخانہ کی بنیاد ڈالنا یا کسی ایسے فساد کی بنیاد ڈالنا جو اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہے۔ یعنی مرنے کے بعد ان کے ثواب و عذاب میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ : قرآن میں اس کے کئی عنوان ہیں: مثلاً لوح محفوظ، ام الکتاب، الکتاب المبین، امام مبین۔ البتہ ان میں امام مبین کے بارے میں احادیث میں آیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: انا و اللہ الامام المبین ابین الحق من الباطل ورثتہ من رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (ینابیع المودۃ ط استنبول۔ بحار الانوار 35: 427، تفسیر قمی) قسم بخدا میں ہی امام مبین ہوں۔ حق کو باطل سے جدا کر کے بیان کرنے والا میں ہوں، جسے میں نے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وراثت میں لیا ہے۔

علامہ طباطبائیؒ فرماتے ہیں : حدیث کے صحیح ہونے کی صورت میں یہ بطن و اشارات قرآن میں سے ہے، تفسیر نہیں ہے۔

میں کہتا ہوں: حدیث صحیح ہونے کی صورت میں یہ امام مبین کی تعبیر سے مربوط ہے کہ میں حق و باطل بیان کرنے والا امام ہوں۔ کُلَّ شَیۡءٍ سے مربوط نہیں ہے۔ اشتراک لفظی سے اشتباہ نہ ہو۔

وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلًا اَصۡحٰبَ الۡقَرۡیَۃِ ۘ اِذۡ جَآءَہَا الۡمُرۡسَلُوۡنَ ﴿ۚ۱۳﴾

۱۳۔ اور ان کے لیے بستی والوں کو مثال کے طور پر پیش کرو جب ان کے پاس پیغمبر آئے۔

اِذۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہِمُ اثۡنَیۡنِ فَکَذَّبُوۡہُمَا فَعَزَّزۡنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوۡۤا اِنَّاۤ اِلَیۡکُمۡ مُّرۡسَلُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ جب ہم نے ان کی طرف دو پیغمبر بھیجے تو انہوں نے دونوں کی تکذیب کی پھر ہم نے تیسرے سے (انہیں) تقویت بخشی تو انہوں نے کہا: ہم تو تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔

13۔ 14 اس واقعہ کو بیان کرنے کی غرض انبیاء اور سابقہ امتوں کی تاریخ اور منکرین کا انجام بتانا ہے۔ اس بستی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شام کا شہر انطاکیہ ہے۔ لیکن جو روایات اس سلسلے میں مذکور ہیں وہ سیاق آیت کے مطابق نہیں ہیں۔

قَالُوۡا مَاۤ اَنۡتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَا ۙ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ الرَّحۡمٰنُ مِنۡ شَیۡءٍ ۙ اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا تَکۡذِبُوۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ بستی والوں نے کہا: تم تو صرف ہم جیسے بشر ہو اور خدائے رحمن نے کوئی چیز نازل نہیں کی ہے، تم تو محض جھوٹ بولتے ہو۔

قَالُوۡا رَبُّنَا یَعۡلَمُ اِنَّاۤ اِلَیۡکُمۡ لَمُرۡسَلُوۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔ رسولوں نے کہا: ہمارا رب جانتا ہے کہ ہم تمہاری طرف ہی بھیجے گئے ہیں۔

وَ مَا عَلَیۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ﴿۱۷﴾

۱۷۔ اور ہم پر تو فقط واضح طور پر پیغام پہنچانا (فرض) ہے اور بس۔

قَالُوۡۤا اِنَّا تَطَیَّرۡنَا بِکُمۡ ۚ لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَہُوۡا لَنَرۡجُمَنَّکُمۡ وَ لَیَمَسَّنَّکُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۱۸﴾

۱۸۔ بستی والوں نے کہا: ہم تمہیں اپنے لیے برا شگون سمجھتے ہیں، اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں ضرور سنگسار کر دیں گے اور ہماری طرف سے تمہیں دردناک عذاب ضرور پہنچے گا۔

قَالُوۡا طَآئِرُکُمۡ مَّعَکُمۡ ؕ اَئِنۡ ذُکِّرۡتُمۡ ؕ بَلۡ اَنۡتُمۡ قَوۡمٌ مُّسۡرِفُوۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ رسولوں نے کہا: تمہاری بدشگونی خود تمہارے ساتھ ہے، کیا یہ(بدشگونی) اس لیے ہے کہ تمہیں نصیحت کی گئی ہے؟ بلکہ تم حد سے تجاوز کرنے والے ہو۔

19۔ بدشگونی لوگوں کے توہمات کی پیدا کردہ ہے اور اس کا حقیقت کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہے۔ اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ مختلف اقوام میں بدشگونی کے توہمات مختلف اور متضاد ہوتے ہیں۔ مثلاً کوے کا کائیں کائیں کرنا عربوں میں جدائی کی علامت ہے، جبکہ ہمارے ہاں یہی علامت وصال کی ہے اور کہا جاتا ہے کہ کوا بولے تو مہمان آنے والا ہوتا ہے۔ حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام سے روایت ہے: وَالطِّیَرَۃُ لَیْسَتْ بِحَقٍّ (شرح نہج البلاغۃ 19: 372) بدشگونی حق پر مبنی نہیں ہے۔

وَ جَآءَ مِنۡ اَقۡصَا الۡمَدِیۡنَۃِ رَجُلٌ یَّسۡعٰی قَالَ یٰقَوۡمِ اتَّبِعُوا الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿ۙ۲۰﴾

۲۰۔ شہر کے دور ترین گوشے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا، بولا: اے میری قوم! ان رسولوں کی پیروی کرو۔

20۔ الدرالمنثور میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: صدیقین تین ہیں: حبیب نجار مومن آل یاسین، حزقیل مومن آل فرعون اور علی بن ابی طالب علیہ السلام جو ان سب سے افضل ہیں۔

بخاری نے اپنی تاریخ میں بھی اس روایت کا ذکر کیا ہے۔ ان روایات کے مطابق جس شخص نے یہ منطقی استدلال کیا وہ حبیب نجار تھا۔ ان کے استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ اطاعت اس رہنما کی ہونی چاہیے جس میں دو باتیں ہوں: اول یہ کہ جس بات کی طرف وہ دعوت دے رہا ہے اس میں اس کا اپنا کوئی مادی مفاد نہ ہو۔ دوم یہ کہ خود ہدایت پر ہو۔ آیت 22 میں بتایا کہ عبادت اس کی ہونی چاہیے جس میں دو باتیں موجود ہوں: اول یہ کہ وہ خالق ہو، دوم یہ کہ اس کے حضور پلٹ کر جانا ہو۔