آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ یس

سورۃ کی پہلی آیت کے الفاظ پر اس سورۃ کا نام یٰسٓ رکھا گیا ہے۔

سورۃ کے مضامین سے واضح ہے کہ یہ مکی سورۃ ہے۔ اس کے اولین مخاطبین اہل مکہ ہیں اور انداز بیان استدلالی ہے۔ ممکن ہے اس سورۃ کا تعلق مکی زندگی کے اواخر سے ہو۔

رسول کریم علیہم السلام کی احادیث ہیں:

۱۔ اَِّن لِکُلِّ شَیْئٍ قلباً وَ قَلْبُ الْقُرآنِ یٰسٓ۔ ( مستدرک الوسائل ۴: ۳۲۳)

ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل یٰسٓ ہے۔

۲۔ سُورَۃُ یٰسٓ تُدْعَی فِی التُّوْرَاۃِ الْمُعِمَّۃَ قِیْلَ وَ مَا الْمُعِمَّۃُ قَالَ ص تَعُمُّ صِاحِبَھَا خَیْرَ الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃِ۔۔۔۔ ( مستدرک الوسائل ۴: ۳۲۲)

سورۃ یٰس کو توریت میں المعمۃ کہتے ہیں۔ پوچھا گیا: المعمۃ کیا ہے؟ فرمایا: جس کے پاس سورۃ یٰس ہو گی اس کے پاس دنیا و آخرت کی بھلائی ہو گی۔

۳۔ عَلَّمُوا اَوْلَادَکُمْ یٰسٓ فَاِنَّھَا رَیْحَانَۃُ الْقُرآنِ۔ ( مستدرک الوسائل ۴: ۳۲۵)

اپنی اولاد کو سورۃ یٰس کی تعلیم دو، یہ قرآن کا گلدستہ ہے۔

اس سورت کے مضامین پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں:

۱۔ روایت کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسمائے مبارکہ میں سے ایک اسم يٰسۗ ہے۔ سورت کی ابتدا آپؐ کی رسالت کے توثیقی قسمیہ جملے سے ہوتی ہے: وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡحَکِیۡمِ اِنَّکَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۳﴾

۲۔ اس قوم کا ذکر ہے جس کی طرف آپؐ مبعوث ہوئے۔ ایسی قوم کی طرف جن میں آپؐ سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا: لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اُنۡذِرَ اٰبَآؤُہُمۡ۔۔۔۔

۳۔ تاریخ انبیاء علیہم السلام کا ایک ورق: وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلًا اَصۡحٰبَ الۡقَرۡیَۃِ اس کے بعد انبیاء علیہم السلام کی تکذیب کرنے والوں کا انجام: یٰحَسۡرَۃً عَلَی الۡعِبَادِ۔

۴۔ اللہ تعالیٰ کے رازق اور مدبر ہونے پر چند نشانیوں کی نشاندہی: وَ اٰیَۃٌ لَّہُمُ الۡاَرۡضُ الۡمَیۡتَۃُ ۚۖ اَحۡیَیۡنٰہَا۔۔۔۔

۵۔ تدبیر کائنات کے ایک اہم نکتہ ’’زوجیت ‘‘ کے آفاقی نظام کا ذکر: سُبۡحٰنَ الَّذِیۡ خَلَقَ الۡاَزۡوَاجَ کُلَّہَا۔۔۔۔

۶۔ تدبیر کائنات سے متعلق شب و روز کی آمد و رفت، سورج اور چاند کی گردش میں پوشیدہ نکات: وَ الشَّمۡسُ تَجۡرِیۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّہَا۔۔۔۔

۷۔ اللہ کے مدبر کائنات ہونے کی ایک اور نشانی کا ذکر۔ سمندر اور کشتی رانی کے نظام کا ذکر: وَ اٰیَۃٌ لَّہُمۡ اَنَّا حَمَلۡنَا ذُرِّیَّتَہُمۡ فِی الۡفُلۡکِ الۡمَشۡحُوۡنِ۔

۸۔ انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں کفار کا احمقانہ موقف: اَنُطۡعِمُ مَنۡ لَّوۡ یَشَآءُ اللّٰہُ اَطۡعَمَہٗۤ۔۔۔۔

۹۔ قیامت کے دفعتاً قائم ہونے کا ذکر: مَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا صَیۡحَۃً۔۔۔۔

۱۰۔ اہل جنت کا احوال: اِنَّ اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ الۡیَوۡمَ فِیۡ شُغُلٍ فٰکِہُوۡنَ۔

۱۱۔ اہل جہنم کا احوال: وَ امۡتَازُوا الۡیَوۡمَ اَیُّہَا الۡمُجۡرِمُوۡنَ۔

۱۲۔ ایک مرتبہ پھر اللہ تعالیٰ کے تدبیر کائنات کے شواہد۔

۱۳۔ اعادۂ حیات پر ایک دلیل: قُلۡ یُحۡیِیۡہَا الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَہَاۤ اَوَّلَ مَرَّۃٍ۔۔۔۔

۱۱۴۔ ہر شے ارادۂ الٰہی کی گرفت میں: بِیَدِہٖ مَلَکُوۡتُ کُلِّ شَیۡءٍ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

یٰسٓ ۚ﴿۱﴾

۱۔ یا، سین ۔

تفسیر آیات

۱۔ یٰسٓ: حروف مقطعات کے بارے میں ہمارا موقف سورۂ بقرہ کی ابتدا میں بیان ہوا ہے کہ یہ ایک رمز ہیں۔ خالق اور اپنے حبیب کے درمیان ان حروف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی اور سے خطاب مقصود نہیں ہے۔

البتہ روایات میں آیا ہے کہ یٰسٓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسمائے مبارکہ میں سے ہے۔ چنانچہ السید الحمیری اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں:

یا نفس لا تمحضی بالود جاھدۃ

علی المودۃ الا آل یا سینا ( روح المعانی )

اے نفس! آل یاسین کے علاوہ کسی کی خالص محبت کرنے کی سعی نہ کر۔

روایت کے مطابق اس پر دلیل یہ بھی ہے کہ یٰسٓ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب ہوا ہے۔ جیسے کہا ہو: یا محمد انک لمن المرسلین۔ چنانچہ حضرت علی اور امام محمد باقر علیہما السلام سے روایت ہے: یٰسٓ اسم نبی ہے۔ ( مجمع البیان )


آیت 1