آیت 6
 

لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اُنۡذِرَ اٰبَآؤُہُمۡ فَہُمۡ غٰفِلُوۡنَ﴿۶﴾

۶۔تاکہ آپ ایک ایسی قوم کو تنبیہ کریں جس کے باپ دادا کو تنبیہ نہیں کی گئی تھی لہٰذا وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

تفسیر آیات

یہ قرآن اس لیے نازل کیا گیا تاکہ آپؐ اس قوم کی تنبیہ کریں جس کے باپ دادا کو تنبیہ نہیں کی گئی۔ رسول صلی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاصر لوگوں کے قریبی آباء و اجداد کی تنبیہ نہیں ہوئی۔ یہ تنبیہ نہ ہونے کی وجہ نذیرکا نہ ہونا نہیں ہے بلکہ تحریفات اور خیانتوں کی وجہ سے انبیاء علیہم السلام کی تنبیہ ان تک نہیں پہنچی۔ یہ اس فترۃ اور وقفہ کے دوران کی بات ہے جس میں پانچ سو سال تک کوئی نبی معبوث نہیں ہوا۔

سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے سورۂ فاطر آیت ۲۴ میں فرمایا: وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ اور کوئی امت ایسی نہیں گزری جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو۔ یہاں فرمایا: مَّاۤ اُنۡذِرَ اٰبَآؤُہُمۡ ان کے باپ دادا کی تنبیہ نہیں کی گئی۔ ان دونوں آیات میں تصادم نہیں ہے؟

جواب یہ ہے: اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: ما ارسلنا الیہم نذیراً ہم نے ان کی طرف کسی تنبیہ کرنے والے کو نہیں بھیجا کہ اعتراض درست ہو جائے بلکہ فرمایا: اُنۡذِرَ ان کی تنبیہ نہیں کی گئی۔ تنبیہ نہ ہونا نذیر اور نبی نہ ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی تعلیمات میں تحریف اور خود لوگوں کی طرف سے رکاوٹ ڈالنے کی وجہ سے تنبیہ نہیں ہوئی۔ ورنہ ان کی طرف حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل، ھود، صالح اور شعیب علیہم السلام مبعوث ہوئے۔


آیت 6