بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾

۱۔الف ، لام ، میم۔

تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡحَکِیۡمِ ۙ﴿۲﴾

۲۔ یہ حکمت بھری کتاب کی آیات ہیں۔

ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لِّلۡمُحۡسِنِیۡنَ ۙ﴿۳﴾

۳۔نیکوکاروں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے،

الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمۡ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ﴿۴﴾

۴۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہی تو آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔

اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴿۵﴾

۵۔ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡتَرِیۡ لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ لِیُضِلَّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ٭ۖ وَّ یَتَّخِذَہَا ہُزُوًا ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ﴿۶﴾

۶۔ اور انسانوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو بیہودہ کلام خریدتے ہیں تاکہ نادانی میں (لوگوں کو) راہ خدا سے گمراہ کریں اور اس (راہ) کا مذاق اڑائیں، ایسے لوگوں کے لیے ذلت میں ڈالنے والا عذاب ہو گا۔

6۔ اس آیت کے شان نزول میں مروی ہے کہ نضر بن حارث تاجرتھا اور فارس (ایران) کے علاقوں میں سفر کرتا تھا اور وہاں کی داستانوں پر مشتمل کتب خرید کر لاتا اور انہیں قریش والوں کو سنایا کرتا اور کہتا تھا: محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمہیں عاد و ثمود کی داستانیں سناتا ہے اور میں تمہیں رستم و اسفندیار اور بادشاہوں کی داستانیں سناتا ہوں۔ چنانچہ لوگ قرآن کی جگہ یہ داستانیں سنا کرتے تھے۔ (مجمع البیان)

امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے: غنا وہ گناہ ہے جس پر اللہ نے جہنم کی سزا رکھی ہے، پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس آیت کے ذیل میں فرمایا: غنا بھی لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ میں شامل ہے۔حضرت امام رضا علیہ السلام سے بھی یہی مروی ہے۔ (المیزان)

وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِ اٰیٰتُنَا وَلّٰی مُسۡتَکۡبِرًا کَاَنۡ لَّمۡ یَسۡمَعۡہَا کَاَنَّ فِیۡۤ اُذُنَیۡہِ وَقۡرًا ۚ فَبَشِّرۡہُ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ﴿۷﴾

۷۔ اور جب اسے ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ تکبر کے ساتھ اس طرح منہ موڑ لیتا ہے جیسے اس نے سنا ہی نہ ہو، گویا اس کے دونوں کان بہرے ہیں، پس اسے دردناک عذاب کی بشارت دے دیں۔

7۔ یعنی جو لوگ لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ یعنی غنا جیسے گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں ان کو اگر اللہ کی آیات پڑھ کر سنا دی جائیں تو وہ بڑی نخوت کے ساتھ منہ موڑ لیتے ہیں۔ (صدق الخالق) تمسخر کرنے والے متکبرین کی نخوت توڑنے کے لیے از راہ تمسخر فرمایا: ان کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجیے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمۡ جَنّٰتُ النَّعِیۡمِ ۙ﴿۸﴾

۸۔ جو لوگ ایمان لائیں اور نیک اعمال انجام دیں ان کے لیے نعمت والے باغات ہوں گے،

خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقًّا ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿۹﴾

۹۔ جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے اور وہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَہَا وَ اَلۡقٰی فِی الۡاَرۡضِ رَوَاسِیَ اَنۡ تَمِیۡدَ بِکُمۡ وَ بَثَّ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ ؕ وَ اَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنۡۢبَتۡنَا فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ زَوۡجٍ کَرِیۡمٍ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر پیدا کیا جو تمہیں نظر آئیں اور اس نے زمین میں پہاڑ گاڑ دیے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈگمگا نہ جائے اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیے اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس (زمین) میں ہر قسم کے نفیس جوڑے اگائے۔

10۔ زَوۡجٍ کَرِیۡمٍ : یعنی نفیس جوڑے۔ اس سلسلے میں اب تک جو حقیقت سامنے آئی ہے، وہ یہ ہے کہ ہر نبات نر و مادہ خلیوں پر مشتمل ہے۔ یہ دونوں یا تو کبھی ایک پھول میں ہوتے ہیں اور کبھی ایک میں نر دوسرے میں مادہ، کبھی ایک شاخ میں نر اور دوسری میں مادہ، کبھی ایک درخت میں نر اور دوسرے میں مادہ۔ جب تک کسی ذریعے سے ان دونوں میں ملاپ نہ ہو وہ درخت پھل نہیں دیتا۔

نامرئی ستونوں کے بارے میں سورہ رعد آیت 2 کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیں۔