آیت 6
 

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡتَرِیۡ لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ لِیُضِلَّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ٭ۖ وَّ یَتَّخِذَہَا ہُزُوًا ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ﴿۶﴾

۶۔ اور انسانوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو بیہودہ کلام خریدتے ہیں تاکہ نادانی میں (لوگوں کو) راہ خدا سے گمراہ کریں اور اس (راہ) کا مذاق اڑائیں، ایسے لوگوں کے لیے ذلت میں ڈالنے والا عذاب ہو گا۔

شان نزول: اس آیت کے شان نزول میں روایت ہے:

نضر بن حارث تاجر تھا۔ فارس (ایران) کے علاقوں میں سفر کرتا تھا۔ وہاں کی داستانوں پر مشتمل کتاب خرید کر لاتا، انہیں قریش والوں کو سنایا کرتا اور کہتا تھا: محمد تمہیں عاد و ثمود کی داستانیں سناتا ہے اور میں تمہیں رستم و اسفند یار اور بادشاہوں کی داستانیں سناتا ہوں۔ چنانچہ لوگ قرآن کی جگہ یہ داستانیں سنا کرتے تھے۔ ( مجمع البیان )

تفسیر آیات

۱۔ لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ: لہو ان بیہودہ باتوں کو کہتے ہیں جو انسان کو اپنی ضرورت کی باتوں سے باز رکھے ( المفردات الۡحَدِیۡثِ: خبر، حکایت، کلام کو کہتے ہیں۔ لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ یعنی بیہودہ باتیں۔

اس آیت میں ان لوگوں کو ذلت آمیز عذاب کی خبر دی گئی جو بیہودہ باتوں کو خرید لاتے ہیں۔ یَّشۡتَرِیۡ خریدنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ یا تو مال دے کر لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ خریدتے ہیں، خرافات پر مشتمل داستانیں خرید لاتے ہیں یا گلو کاروں کو معاوضہ دے کر لہویات پر مشتمل محافل جماتے ہیں یا کوئی ایسا عمل انجام دیا جاتا ہے جس سے وہ ان بیہودہ گوئیوں کو بلاتے ہیں۔

لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ کا ایک مصداق وہ داستانیں ہیں جن سے کلام اللہ سننے سے لوگوں کو باز رکھتے ہیں۔

لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ کا دوسرا اہم مصداق غنا ہے۔

غنا کی تعریف: الصوت المرجع فیہ علی سبیل اللھو و الباطل ۔ وہ اتار چڑھاؤ والی آواز جو لہو اور باطل کے طور پر نکالی جاتی ہے۔ دوسری تعریف یہ کی گئی ہے: وہ آواز جو اہل لہو و لعب کے ہاں معمول ہے۔ جیسے فلمی گانے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:

الْغِنَائُ مِمَّا وَعَدَ اللہُ عَزَّوَجَلَّ عَلَیْہِ النَّارَ وَ تَلاَ ھََذِہِ الْآیِۃِ ۔۔۔۔ (الکافی ۶: ۴۳۱)

غنا وہ ہے جس پر اللہ نے جہنم کی سزا رکھی ہے۔ پھر امام علیہ السلام نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس آیت کے ذیل میں فرمایا: غنا بھی لَہْوَالْحَدِيْثِ میں شامل ہے۔ حضرت امام رضا علیہ السلام سے بھی یہی مروی ہے۔

ایک حدیث میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

الْغِنَائُ عُشُّ النِّفَاقِ ۔ (الکافی ۶: ۴۳۱)

غنا نفاق کی آماجگاہ ہے۔

۲۔ لِیُضِلَّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ: ان بیہودہ باتوں کو خریدنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو راہ خدا سے منحرف کر کے گمراہ کیا جائے۔ یہاں سیاق آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ سَبِیۡلِ اللّٰہِ سے مراد قرآن ہے۔ بیہودہ گوئی رائج کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن سے دور کیا جائے۔

۳۔ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ: گمراہ کرنے والوں کا کسی علم کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا بلکہ گمراہی اور جہالت باہم مترادف ہیں۔

۴۔ وَّ یَتَّخِذَہَا ہُزُوًا: بیہودہ باتوں کا دوسرا مقصد راہ خدا سے تمسخر کرنا ہے کہ وہ بیہودہ باتیں سنا کر آیات الٰہی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یَتَّخِذَہَا میں ضمیر سبیل کی طرف ہے۔ سبیل مؤنث مذکر دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ ( التبیان )

اہم نکات

۱۔ جو بات بھی قرآن کے مقابلے میں آئے وہ لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ ہے۔


آیت 6