وَ اِنَّ رَبَّکَ لَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الرَّحِیۡمُ﴿۱۹۱﴾٪

۱۹۱۔ اور یقینا آپ کا رب ہی بڑا غالب آنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

وَ اِنَّہٗ لَتَنۡزِیۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۹۲﴾ؕ

۱۹۲۔ اور بتحقیق یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل کیا ہو اہے۔

نَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ﴿۱۹۳﴾ۙ

۱۹۳۔ جسے روح الامین نے اتارا،

عَلٰی قَلۡبِکَ لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُنۡذِرِیۡنَ﴿۱۹۴﴾

۱۹۴۔ آپ کے قلب پر تاکہ آپ تنبیہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں ،

194۔ قلب سے مراد عضو صنوبری نہیں جو سینے کے بائیں جانب دھڑکتا ہے، بلکہ مراد نفس کے اندر موجود وہ مرکزی قوت ہے جو حقیقت میں شعور، ارادے اور ادراک کا مرکز ہے۔ چنانچہ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وحی کو ظاہری حواس سے نہیں لیتے تھے۔ یہ حواس تو دوسروں کے پاس بھی ہیں۔ اس کے باوجود وحی کے نزول کے وقت لوگ بیٹھے ہوتے تھے، وہ نہ کوئی آواز سنتے تھے، نہ کسی کو دیکھ لیتے تھے، بلکہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وحی کا اس طرح ادارک کرتے تھے، جس طرح اپنے وجود کا ادراک کرتے ہیں۔ اسی لیے وحی کے ادراک میں کسی قسم کے شبہ اور غلطی کا امکان نہیں ہے۔ جب کہ حواس کے ذریعے جو ادراک ہوتا ہے، غیر رسول کے لیے اس میں اشتباہ کا امکان رہتا ہے۔ چنانچہ بعض لوگوں نے حواس کے چھ سو اشتباہات گنے ہیں۔

بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیۡنٍ﴿۱۹۵﴾ؕ

۱۹۵۔ صاف عربی زبان میں۔

وَ اِنَّہٗ لَفِیۡ زُبُرِ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۱۹۶﴾

۱۹۶۔ اور اس (قرآن) کا ذکر (انبیائے) ما سلف کی کتب میں بھی ہے۔

اَوَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہُمۡ اٰیَۃً اَنۡ یَّعۡلَمَہٗ عُلَمٰٓؤُا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ﴿۱۹۷﴾ؕ

۱۹۷۔ کیا یہ قرآن ان کے لیے ایک نشانی (معجزہ) نہیں ہے کہ اس بات کو بنی اسرائیل کے علماء جانتے ہیں۔

197۔ سورﮤ بقرہ آیت 89 میں ذکر آ گیا کہ بنی اسرائیل کے علماء، رسول آخر زمان صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آمد کے منتظر تھے اور ان کے تمام اوصاف سے باخبر تھے۔

وَ لَوۡ نَزَّلۡنٰہُ عَلٰی بَعۡضِ الۡاَعۡجَمِیۡنَ﴿۱۹۸﴾ۙ

۱۹۸۔ اور اگر ہم اس قرآن کو کسی غیر عربی پر نازل کرتے،

فَقَرَاَہٗ عَلَیۡہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ مُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۹۹﴾ؕ

۱۹۹۔ اور وہ اسے پڑھ کر انہیں سنا دیتا تب بھی یہ اس پر ایمان نہ لاتے ۔

198۔199 اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہو سکتی ہے کہ اگر ہم قرآن کو عربی کی بجائے کسی اور زبان میں نازل کرتے اور تمہیں پڑھ کر سناتے تو تم نے اس پر یہ کہکر ایمان نہیں لانا تھا کہ یہ باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں۔

دوسری تفسیر یہ ہو سکتی ہے کہ ہم نے قرآن کو عربی زبان میں عربی بولنے والے شخص پر نازل کیا تو تم نے کہا کہ یہ اس نے خود تصنیف کیا ہے۔ لیکن اگر ہم یہ قرآن عربی زبان میں کسی غیر عرب پر نازل کرتے اور وہ تم کو پڑھ کر سناتا تو بھی تم یہ کہکر ایمان لانے سے انکار کرتے کہ یہ صریح جادو ہے کیونکہ غیر عرب عربی زبان میں بات کر رہا ہے۔

کَذٰلِکَ سَلَکۡنٰہُ فِیۡ قُلُوۡبِ الۡمُجۡرِمِیۡنَ﴿۲۰۰﴾ؕ

۲۰۰۔ اس طرح (کے دلائل دے کر) ہم نے اس قرآن کو ان مجرموں کے دلوں میں سے گزارا ہے۔