آیت 197
 

اَوَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہُمۡ اٰیَۃً اَنۡ یَّعۡلَمَہٗ عُلَمٰٓؤُا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ﴿۱۹۷﴾ؕ

۱۹۷۔ کیا یہ قرآن ان کے لیے ایک نشانی (معجزہ) نہیں ہے کہ اس بات کو بنی اسرائیل کے علماء جانتے ہیں۔

تفسیر آیات

اہل مکہ خود تو سابقہ آسمانی کتابوں سے واقف نہ تھے لیکن انہیں یہ علم تھا کہ بنی اسرائیل کے علماء جو تعلیمات بتاتے ہیں وہ بھی انہی تعلیمات پر مشتمل ہیں۔ مکہ والوں نے علمائے بنی اسرائیل سے مختلف مناسبتوں میں سن لیا تھا کہ یہ تعلیمات وہی ہیں جو ہماری کتاب میں ہیں۔

چنانچہ حضرت جعفر طیارؓ کی دعوت پر بیس افراد پر مشتمل ایک وفد مکہ آیا اور کفار قریش کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپؐ کیا تعلیمات لائے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب میں چند قرآنی آیات تلاوت فرمائیں۔ یہ آیات سن کر ان کی آنکھیں اشکبار ہوئیں اور ایمان لے آئے۔ (سیرت ابن ہشام۔ مجمع البیان)

اس قسم کے دیگر واقعات سے مکہ والوں کو علم ہو گیا تھا کہ قرآنی تعلیمات آسمانی تعلیمات کا ایک تسلسل ہے۔


آیت 197