اَوۡفُوا الۡکَیۡلَ وَ لَا تَکُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُخۡسِرِیۡنَ﴿۱۸۱﴾ۚ

۱۸۱۔ تم پیمانہ پورا بھرو اور نقصان پہنچانے والوں میں سے نہ ہونا۔

وَ زِنُوۡا بِالۡقِسۡطَاسِ الۡمُسۡتَقِیۡمِ﴿۱۸۲﴾ۚ

۱۸۲۔ اور سیدھی ترازو سے تولا کرو۔

وَ لَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡیَآءَہُمۡ وَ لَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ﴿۱۸۳﴾ۚ

۱۸۳۔اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دیا کرو اور زمین میں فساد پھیلاتے مت پھرو۔

183۔ مدین تجارتی قافلوں کی گزر گاہ پر آباد تھا۔ اس لیے ناپ تول میں خیانت نہ کرنے کے حکم کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔

مدین، حجاز اور شام کے درمیان تجارت کی ایک اہم منڈی تھی۔ اس لیے یہاں سے تجارتی قافلوں کا گزر ہوتا تھا۔ حجاز والے شام سے آنے والی اشیاء اور شام والے حجاز سے آنے والی اشیاء خریدتے ہوں گے اور اس سلسلے میں جو خلاف ورزیاں سرزد ہوا کرتی تھیں، ان کے لیے حکم ہوا اول پیمانہ پورا بھرو، دوم سیدھی ترازو سے تولا کرو، سوم دھوکہ دہی سے باز آجاؤ کہ لوگوں کو مطلوبہ چیز کی جگہ ناقص چیز دے کر نقصان میں نہ ڈالو۔ ہو سکتا ہے کہ ایک پیمانے کے اعتبار سے پورا ہو اور وزن کے اعتبار سے بھی درست ہو لیکن مال ناقص ہو۔ اس کے لیے لَا تَبۡخَسُوا فرمایا۔ چہارم یہ کہ زمین میں فساد نہ پھیلایا کرو۔ تجارت میں اعتدال سے تجاوز کرنا دوسروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا، فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ ہے۔ اس جگہ وَ لَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اقتصادی انحرافات سے زمین میں فساد پھیلتا ہے۔ صَدَقَ اللّٰہُ الۡعَلِیُّ الۡعَظِیۡمُ ۔ آج کے استحصالیوں نے اقتصادی ذرائع سے زمین کو فساد سے پر کیا ہے۔

وَ اتَّقُوا الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الۡجِبِلَّۃَ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۱۸۴﴾ؕ

۱۸۴۔ اور اس اللہ سے ڈرو جس نے تمہیں اور گزشتہ نسلوں کو پیدا کیا ہے

قَالُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مِنَ الۡمُسَحَّرِیۡنَ﴿۱۸۵﴾ۙ

۱۸۵۔ انہوں نے کہا: تم تو بس سحرزدہ ہو۔

وَ مَاۤ اَنۡتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَا وَ اِنۡ نَّظُنُّکَ لَمِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ﴿۱۸۶﴾ۚ

۱۸۶۔ اور تم تو بس ہم جیسے انسان ہو نیز ہمارا خیال ہے کہ تم جھوٹے ہو۔

فَاَسۡقِطۡ عَلَیۡنَا کِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ﴿۱۸۷﴾ؕ

۱۸۷۔ پس تم سچے ہو تو آسمان کا کوئی ٹکڑا ہم پر گرا دو۔

قَالَ رَبِّیۡۤ اَعۡلَمُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۸۸﴾

۱۸۸۔ شعیب نے کہا: میرا رب تمہارے اعمال سے خوب واقف ہے۔

فَکَذَّبُوۡہُ فَاَخَذَہُمۡ عَذَابُ یَوۡمِ الظُّلَّۃِ ؕ اِنَّہٗ کَانَ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ﴿۱۸۹﴾

۱۸۹۔ انہوں نے شعیب کو جھٹلا ہی دیا، چنانچہ سائبان والے دن کے عذاب نے انہیں گرفت میں لے لیا، بے شک وہ بہت بڑے (ہولناک) دن کا عذاب تھا۔

189۔ یہاں الظُّلَّۃِ سائبان کا عذاب کہا۔ سورہ ہود میں الصَّیۡحَۃُ ہولناک آواز کہا اور الاعراف میں الرَّجۡفَۃُ زلزلہ کہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ سائبان یعنی بادل سے بجلی گری ہو جس سے ہولناک آواز پیدا ہوئی ہو اور ساتھ زمین پر بجلی گرنے سے زلزلہ بھی آیا ہو۔

اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً ؕ وَ مَا کَانَ اَکۡثَرُہُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۹۰﴾

۱۹۰۔ اس میں یقینا ایک نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہ تھے۔