آیات 191 - 194
 

وَ اِنَّ رَبَّکَ لَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الرَّحِیۡمُ﴿۱۹۱﴾٪

۱۹۱۔ اور یقینا آپ کا رب ہی بڑا غالب آنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

وَ اِنَّہٗ لَتَنۡزِیۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۹۲﴾ؕ

۱۹۲۔ اور بتحقیق یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل کیا ہو اہے۔

نَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ﴿۱۹۳﴾ۙ

۱۹۳۔ جسے روح الامین نے اتارا،

عَلٰی قَلۡبِکَ لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُنۡذِرِیۡنَ﴿۱۹۴﴾

۱۹۴۔ آپ کے قلب پر تاکہ آپ تنبیہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں ،

تفسیر آیات

۱۔ وَ اِنَّہٗ لَتَنۡزِیۡلُ: یہ قرآن رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔ سات انبیاء علیہم السلام کے ذکر کے بعد قرآن کا ذکر شروع ہوا کہ جس طرح ان کو مبعوث فرمایا، ان کی تکذیب کی گئی اور تکذیبی قومیں تباہ ہوئیں بالکل اسی طرح یہ قرآن آپؐ کی طرف نازل ہو رہا ہے۔ اسی یکتا رب کی طرف سے جو عالمین کا رب ہے۔

۲۔ نَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ: اس قرآن کو روح الامین یعنی جبرئیل نے قلب رسولؐ پر نازل فرمایا ہے۔ یہاں جبرئیل کا نام لینے کی جگہ روح الامین فرمایا یہ باور کرانے کے لیے کہ اس قرآن کو نازل ایسے فرشتے کے ذریعے کیا ہے کہ جس میں خواہشات کا میلان نہیں ہے۔ مادی خواہشات کا اس میں وجود تک نہیں ہے۔ خالص روح اور امین ہے۔

عَلٰی قَلۡبِکَ: قرآن قلب رسولؐ پر نازل ہوا ہے۔ نزول وحی کے بارے میں مقدمہ اور سورہ بقرۃ آیت ۹۷ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ قلب سے مراد صنوبری شکل کا عضو لحمی نہیں ہے بلکہ قلب اس مرکزی قوت کا نام ہے جو نفس اور روح کے ماوراء میں موجود ہے۔ قلب رسولؐ پر وحی نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ رسول کریم ؐ وحی کا ادراک علم حضوری کے طور پر اپنے پورے وجود سے کرتے تھے، نہ محسوسات کی طرح حواس خمسہ سے۔

چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی تو آپ لوگوں کے درمیان تشریف فرما ہوتے اور غشی طاری ہوتی تو آپؐ فرشتہ وحی کو دیکھ لیتے اور آواز سن لیتے تھے جب کہ گرد و پیش کے لوگ نہ کوئی آواز سنتے تھے، نہ کسی کو دیکھتے تھے۔ اگر عام حواس کے ذریعہ وحی ہوتی تو دوسرے لوگ بھی سن لیتے۔

لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُنۡذِرِیۡنَ: رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگرچہ بشیر و نذیر ہیں لیکن بشارت پر نذارت یعنی تنبیہ کو قرآن زیادہ اہمیت دیتا ہے: اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُنۡذِرٌ وَّ لِکُلِّ قَوۡمٍ ہَادٍ ۔ (۱۳ رعد: ۷) چونکہ انسانی کردار میں انحراف کا خطرہ زیادہ ہے اور خواہشات کا غلبہ انسان پرہر وقت ہو سکتا ہے جس سے انسان بنیادی طور پر منحرف واقع ہوا ہے اس لیے تنبیہ کو بشارت سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ مؤمن کو کردار سازی میں انحراف پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔


آیات 191 - 194