بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمۡ ۚ اِنَّ زَلۡزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیۡءٌ عَظِیۡمٌ﴿۱﴾

۱۔اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو کیونکہ قیامت کا زلزلہ بڑی (خوفناک) چیز ہے۔

یَوۡمَ تَرَوۡنَہَا تَذۡہَلُ کُلُّ مُرۡضِعَۃٍ عَمَّاۤ اَرۡضَعَتۡ وَ تَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمۡلٍ حَمۡلَہَا وَ تَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَ مَا ہُمۡ بِسُکٰرٰی وَ لٰکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیۡدٌ﴿۲﴾

۲۔ جس دن تم اسے دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی (ماں) اپنے شیرخوار کو بھول جائے گی اور تمام حاملہ عورتیں اپنا حمل گرا بیٹھیں گی اور تم لوگوں کو نشے کی حالت میں دیکھو گے، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب بڑا شدید ہو گا۔

2۔ قیامت کے موقع پر، وہ ماں جو جان سے بھی زیادہ عزیز لاڈلے بچے کو دودھ پلا رہی ہو گی، اس بچے سے بھی غافل ہو جائے گی۔

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ وَّ یَتَّبِعُ کُلَّ شَیۡطٰنٍ مَّرِیۡدٍ ۙ﴿۳﴾

۳۔ اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو لاعلمی کے باوجود اللہ کے بارے میں کج بحثیاں کرتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں ۔

3۔ جو لوگ اللہ کے بارے میں کج بحثی کرتے ہیں وہ جہالت کی بنیاد پر ایسا کرتے ہیں۔ کیونکہ اللہ کے بارے میں بحث پوری کائنات کے بارے میں بحث ہے، جس پر انسان کا احاطہ علم ناممکن ہے۔ لہٰذا کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں نے پوری کائنات کو چھان مارا ہے کہیں اللہ نظر نہیں آیا۔ جب کہ اللہ کے وجود کے لیے ایسا نہیں ہے۔ آثار و نشانیوں سے اس کی معرفت ہو جاتی ہے۔ مثلاً ایک گھڑی گھر میں گم ہو جاتی ہے تو یہ کہنے کے لیے کہ گھڑی گھر میں نہیں ہے، پورا گھر چھان مارنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ کہنے کے لیے کہ گھڑی گھر میں ہے، آثار کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ مثلاً گھڑی کی آواز آ رہی ہو تو ثبوت کے لیے کافی ہے کہ گھڑی گھر میں موجود ہے۔ اسی طرح اللہ کے وجود کے اثبات کے لیے کائنات کو چھان مارنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آثار سے ثابت ہو جاتا ہے۔

کُتِبَ عَلَیۡہِ اَنَّہٗ مَنۡ تَوَلَّاہُ فَاَنَّہٗ یُضِلُّہٗ وَ یَہۡدِیۡہِ اِلٰی عَذَابِ السَّعِیۡرِ﴿۴﴾

۴۔ جب کہ اس شیطان کے بارے میں یہ لکھا گیا ہے کہ جو اسے دوست بنائے گا اسے وہ گمراہ کرے گا اور جہنم کے عذاب کی طرف اس کی رہنمائی کرے گا۔

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّنَ الۡبَعۡثِ فَاِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ثُمَّ مِنۡ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنۡ مُّضۡغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّ غَیۡرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَیِّنَ لَکُمۡ ؕ وَ نُقِرُّ فِی الۡاَرۡحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ نُخۡرِجُکُمۡ طِفۡلًا ثُمَّ لِتَبۡلُغُوۡۤا اَشُدَّکُمۡ ۚ وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّتَوَفّٰی وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرَدُّ اِلٰۤی اَرۡذَلِ الۡعُمُرِ لِکَیۡلَا یَعۡلَمَ مِنۡۢ بَعۡدِ عِلۡمٍ شَیۡئًا ؕ وَ تَرَی الۡاَرۡضَ ہَامِدَۃً فَاِذَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡہَا الۡمَآءَ اہۡتَزَّتۡ وَ رَبَتۡ وَ اَنۡۢبَتَتۡ مِنۡ کُلِّ زَوۡجٍۭ بَہِیۡجٍ﴿۵﴾

۵۔ اے لوگو! اگر تمہیں موت کے بعد زندگی کے بارے میں شبہ ہے تو سوچو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر خون کے لوتھڑے سے پھر گوشت کی تخلیق شدہ اور غیر تخلیق شدہ بوٹی سے تاکہ ہم (اس حقیقت کو) تم پر واضح کریں اور ہم جس کو چاہتے ہیں ایک مقررہ وقت تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر تمہیں ایک طفل کی شکل میں نکال لاتے ہیں تاکہ پھر تم جوانی کو پہنچ جاؤ اور تم میں سے کوئی فوت ہو جاتا ہے اور کوئی تم میں سے نکمی عمر کو پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ وہ جاننے کے بعد بھی کچھ نہ جانے اور تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک ہوتی ہے لیکن جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو یہ جنبش میں آ جاتی ہے اور ابھرنے لگتی ہے اور مختلف اقسام کی پر رونق چیزیں اگاتی ہے۔

جو لوگ بروز قیامت دوبارہ زندہ ہونے کو ناممکن تصور کرتے ہیں ان سے خطاب ہے کہ جو ذات تمہیں پہلی بار مٹی سے پیدا کرنے پر قادر ہے وہی ذات تمہیں اس مٹی سے دوبارہ اٹھانے پر بھی قادر ہے۔ اس نے پہلی بار جب انسان کو مٹی سے خلق فرمایا تو اس میں منتشر عناصر کو ایک جگہ جمع کیا۔ چنانچہ مٹی کے یہ عناصر کرہ ارض کے گوشہ و کنار سے سمٹ کر انسان کی غذا بن گئے۔ گندم کسی علاقے سے، پھل کسی علاقے سے، گوشت کسی علاقے سے، پانی پہاڑوں کی چوٹیوں سے، غرض یہ بکھرے ہوئے عناصر سمٹ کر انسان کے دستر خوان پر آئے جن سے انسانی تخلیق کے لیے مواد فراہم ہوا۔ غذا، نطفہ، لوتھڑا، گوشت کی بوٹی پھر ایک کامل انسان۔ وہی ذات اس انسان کے بکھرے ہوئے عناصر کو دوبارہ جمع کر کے اسے زندگی دے سکتی ہے۔ دوسری بات مردہ زمین کی ہے کہ جس پر پانی پڑنے سے یہ متحرک ہو جاتی ہے، پھر اس کے اندر نباتی حیات پیدا ہو جاتی ہے۔ اس طرح تم حیات بعد از موت کا منظر روز مشاہدہ کرتے ہو، پھر بھی تمہیں اس بات میں شک ہے کہ اللہ مردے کو کس طرح دوبارہ زندہ کرے گا؟

مُّضۡغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّ غَیۡرِ مُخَلَّقَۃٍ : مفسرین اور مترجمین نے مُّخَلَّقَۃٍ کا ترجمہ پوری اور غَیۡرِ مُخَلَّقَۃٍ کا ترجمہ ادھوری سے کیا ہے، جو بظاہر درست نہیں، کیونکہ مُّخَلَّقَۃٍ اور غَیۡرِ مُخَلَّقَۃٍ اس مُّضۡغَۃٍ کی صفت ہے جس سے انسان خلق ہو رہا ہے، ادھوری سے خلق نہیں ہوتا۔

جدید تحقیقات سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ مضغۃ کی دو ذمہ داریاں ہیں: ایک بچے کے اعضاء کی ساخت اور دوسرے اس کی حفاظت۔ مُخَلَّقَۃٍ کی ذمہ داری اعضاء کی ساخت ہے، جب کہ مُّضۡغَۃٍ غَیۡرِ مُخَلَّقَۃٍ کا کام اس کی حفاظت اور غذا کا انتظام کرنا ہے۔ چنانچہ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ میں بند اس نازک مخلوق کے لیے شش جہت سے غذا بہم پہنچائی جاتی ہے۔

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡحَقُّ وَ اَنَّہٗ یُحۡیِ الۡمَوۡتٰی وَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ۙ﴿۶﴾

۶۔ یہ سب اس لیے ہے کہ اللہ ہی برحق ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔

6۔ یعنی اللہ ایک حقیقت واقعیہ ہے کسی کی ذہنی اختراع نہیں ہے بلکہ تمام حق و حقیقت کا سرچشمہ اللہ ہے، اللہ کا حق ہونا کسی کی طرف سے عطا شدہ نہیں ہے۔ وہ بذات خود حق ہے۔

وَّ اَنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ لَّا رَیۡبَ فِیۡہَا ۙ وَ اَنَّ اللّٰہَ یَبۡعَثُ مَنۡ فِی الۡقُبُوۡرِ﴿۷﴾

۷۔ اور یہ کہ قیامت آنے والی ہے جس میں کوئی شک نہیں اور یہ کہ اللہ ان سب کو اٹھائے گا جو قبروں میں ہیں۔

7۔ اللہ کے حق ہونے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ خلقت کائنات کا ایک معقول انجام ہے، وہ حیات بعد الموت ہے۔ اگر مرنے کے بعد کوئی زندگی نہ ہوتی تو دنیا کی یہ زندگی عبث اور بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ وَّ لَا ہُدًی وَّ لَا کِتٰبٍ مُّنِیۡرٍ ۙ﴿۸﴾

۸۔ اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر کسی علم اور ہدایت اور روشن کتاب کے کج بحثیاں کرتے ہیں۔

ثَانِیَ عِطۡفِہٖ لِیُضِلَّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ لَہٗ فِی الدُّنۡیَا خِزۡیٌ وَّ نُذِیۡقُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ عَذَابَ الۡحَرِیۡقِ﴿۹﴾

۹۔ تاکہ متکبرانہ انداز میں لوگوں کو راہ خدا سے گمراہ کریں، اس کے لیے دنیا میں خواری ہے اور قیامت کے روز ہم اسے آگ کا عذاب چکھائیں گے۔

ثَانِیَ عِطۡفِہٖ کا لفظی ترجمہ شانہ پھیرنے والا ہے اَلثَّنْیُ : پھیرنا۔ العِطف یعنی الجانب، شانہ پہلو۔ یہ جملہ تکبر کرنے اور اکڑنے والے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتۡ یَدٰکَ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَیۡسَ بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِیۡدِ﴿٪۱۰﴾

۱۰۔ یہ سب تیرے اپنے دونوں ہاتھوں سے آگے بھیجے ہوئے کی وجہ سے ہے ورنہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

10- ظَلَّامٍ : صیغہ مبالغہ کبھی پیشہ بیان کرنے کے لیے آتا ہے۔ جیسے نجّار، تمّار بعض فرماتے ہیں: اگر اللہ کافر اور ظالم کو عذاب دینے کی جگہ مومنوں اور پاکیزہ لوگوں کے برابر رکھتا تو یہ بہت بڑا ظلم ہوتا۔ اس لیے فرمایا: اللہ ظَلَّامٍ بہت ظلم کرنے والا نہیں ہے۔