قدرت خدا


اَفَاَمِنۡتُمۡ اَنۡ یَّخۡسِفَ بِکُمۡ جَانِبَ الۡبَرِّ اَوۡ یُرۡسِلَ عَلَیۡکُمۡ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوۡا لَکُمۡ وَکِیۡلًا ﴿ۙ۶۸﴾

۶۸۔تو کیا تم اس بات سے خائف نہیں ہو کہ اللہ تمہیں خشکی کی طرف زمین میں دھنسا دے یا تم پر پتھر برسانے والی آندھی چلا دے، پھر تم اپنے لیے کوئی ضامن نہیں پاؤ گے۔

اَمۡ اَمِنۡتُمۡ اَنۡ یُّعِیۡدَکُمۡ فِیۡہِ تَارَۃً اُخۡرٰی فَیُرۡسِلَ عَلَیۡکُمۡ قَاصِفًا مِّنَ الرِّیۡحِ فَیُغۡرِقَکُمۡ بِمَا کَفَرۡتُمۡ ۙ ثُمَّ لَا تَجِدُوۡا لَکُمۡ عَلَیۡنَا بِہٖ تَبِیۡعًا﴿۶۹﴾

۶۹۔ آیا تمہیں اس بات کا خوف نہیں کہ اللہ تمہیں دوبارہ سمندر کی طرف لے جائے پھر تم پر تیز ہوا چلا دے پھر تمہارے کفر کی پاداش میں تمہیں غرق کر دے؟ پھر تمہیں اپنے لیے اس بات پر ہمارا پیچھا کرنے والا کوئی نہ ملے گا۔

68 ۔ 69 انسان کاملاً اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ دریا میں ہو یا خشکی میں، اس کے لیے اللہ کی گرفت سے بچ نکلنا ممکن نہیں ہے۔ خشکی میں اگر وہ زمین میں دھنس جائے اور آندھی میں گھر جائے اور سمندر کی لہروں میں پھنس جائے تو اللہ کے علاوہ اسے بچانے والا کوئی نہیں ہے، کیونکہ ان تمام چیزوں پر اللہ کی حکومت ہے اور اللہ کی حکومت سے فرار ممکن نہیں ہے۔

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّنَ الۡبَعۡثِ فَاِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ثُمَّ مِنۡ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنۡ مُّضۡغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّ غَیۡرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَیِّنَ لَکُمۡ ؕ وَ نُقِرُّ فِی الۡاَرۡحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ نُخۡرِجُکُمۡ طِفۡلًا ثُمَّ لِتَبۡلُغُوۡۤا اَشُدَّکُمۡ ۚ وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّتَوَفّٰی وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرَدُّ اِلٰۤی اَرۡذَلِ الۡعُمُرِ لِکَیۡلَا یَعۡلَمَ مِنۡۢ بَعۡدِ عِلۡمٍ شَیۡئًا ؕ وَ تَرَی الۡاَرۡضَ ہَامِدَۃً فَاِذَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡہَا الۡمَآءَ اہۡتَزَّتۡ وَ رَبَتۡ وَ اَنۡۢبَتَتۡ مِنۡ کُلِّ زَوۡجٍۭ بَہِیۡجٍ﴿۵﴾

۵۔ اے لوگو! اگر تمہیں موت کے بعد زندگی کے بارے میں شبہ ہے تو سوچو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر خون کے لوتھڑے سے پھر گوشت کی تخلیق شدہ اور غیر تخلیق شدہ بوٹی سے تاکہ ہم (اس حقیقت کو) تم پر واضح کریں اور ہم جس کو چاہتے ہیں ایک مقررہ وقت تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر تمہیں ایک طفل کی شکل میں نکال لاتے ہیں تاکہ پھر تم جوانی کو پہنچ جاؤ اور تم میں سے کوئی فوت ہو جاتا ہے اور کوئی تم میں سے نکمی عمر کو پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ وہ جاننے کے بعد بھی کچھ نہ جانے اور تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک ہوتی ہے لیکن جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو یہ جنبش میں آ جاتی ہے اور ابھرنے لگتی ہے اور مختلف اقسام کی پر رونق چیزیں اگاتی ہے۔

جو لوگ بروز قیامت دوبارہ زندہ ہونے کو ناممکن تصور کرتے ہیں ان سے خطاب ہے کہ جو ذات تمہیں پہلی بار مٹی سے پیدا کرنے پر قادر ہے وہی ذات تمہیں اس مٹی سے دوبارہ اٹھانے پر بھی قادر ہے۔ اس نے پہلی بار جب انسان کو مٹی سے خلق فرمایا تو اس میں منتشر عناصر کو ایک جگہ جمع کیا۔ چنانچہ مٹی کے یہ عناصر کرہ ارض کے گوشہ و کنار سے سمٹ کر انسان کی غذا بن گئے۔ گندم کسی علاقے سے، پھل کسی علاقے سے، گوشت کسی علاقے سے، پانی پہاڑوں کی چوٹیوں سے، غرض یہ بکھرے ہوئے عناصر سمٹ کر انسان کے دستر خوان پر آئے جن سے انسانی تخلیق کے لیے مواد فراہم ہوا۔ غذا، نطفہ، لوتھڑا، گوشت کی بوٹی پھر ایک کامل انسان۔ وہی ذات اس انسان کے بکھرے ہوئے عناصر کو دوبارہ جمع کر کے اسے زندگی دے سکتی ہے۔ دوسری بات مردہ زمین کی ہے کہ جس پر پانی پڑنے سے یہ متحرک ہو جاتی ہے، پھر اس کے اندر نباتی حیات پیدا ہو جاتی ہے۔ اس طرح تم حیات بعد از موت کا منظر روز مشاہدہ کرتے ہو، پھر بھی تمہیں اس بات میں شک ہے کہ اللہ مردے کو کس طرح دوبارہ زندہ کرے گا؟

مُّضۡغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّ غَیۡرِ مُخَلَّقَۃٍ : مفسرین اور مترجمین نے مُّخَلَّقَۃٍ کا ترجمہ پوری اور غَیۡرِ مُخَلَّقَۃٍ کا ترجمہ ادھوری سے کیا ہے، جو بظاہر درست نہیں، کیونکہ مُّخَلَّقَۃٍ اور غَیۡرِ مُخَلَّقَۃٍ اس مُّضۡغَۃٍ کی صفت ہے جس سے انسان خلق ہو رہا ہے، ادھوری سے خلق نہیں ہوتا۔

جدید تحقیقات سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ مضغۃ کی دو ذمہ داریاں ہیں: ایک بچے کے اعضاء کی ساخت اور دوسرے اس کی حفاظت۔ مُخَلَّقَۃٍ کی ذمہ داری اعضاء کی ساخت ہے، جب کہ مُّضۡغَۃٍ غَیۡرِ مُخَلَّقَۃٍ کا کام اس کی حفاظت اور غذا کا انتظام کرنا ہے۔ چنانچہ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ میں بند اس نازک مخلوق کے لیے شش جہت سے غذا بہم پہنچائی جاتی ہے۔